28 اپریل ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کی شکایات دور کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیکرٹری داخلہ میکنرم بنائیں تاکہ بلوچ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو روکا جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ بلوچ طلبہ کے آبائی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کریں۔
عدالت نے بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ اور گمشدگیوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قائد اعظم یونیورسٹی کے لاپتہ اسٹوڈنٹ کی بازیابی اور بلوچ اسٹوڈنٹس کو ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی طرف سے ایمان حاضر مزاری ایڈووکیٹ جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔
ایمان مزاری نے بتایا کہ ایک بلوچ طالب علم ڈاکٹر دلدار بلوچ کو کراچی سے جبکہ نمل یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو پنجاب یونیورسٹی سے اٹھایا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے حکومت بلوچ اسٹوڈنٹس کے حوالے سے معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ ایچ ای سی کو تمام یونیورسٹیز کو نوٹس جاری کرنا چاہیے تاکہ بلوچ طلبہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالتی حکم پر صدر مملکت کے ساتھ بلوچ طالب علموں کی دو میٹنگز ہوئی ہیں اور انہوں نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ حقیقی ایشوز ہیں لیکن گزشتہ حکومت نے بھی ان کو نظر انداز کیا۔ طلبہ کی نسلی پروفالنگ کیوں ہو رہی ہے؟ پھر تو وزارت انسانی حقوق کو بند کردیں، یہ بچے ملک کا مستقل ہیں، کیا عدالتیں ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر لیں؟ بالکل ایسا نہیں کریں گے۔ کیا کابینہ کو معلوم نہیں ہوتا ملک میں کیا ہورہا ہے؟ کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں وہ کل ان کے پاس نہیں جا رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتہ؟ جب بھی کوئی حکومت میں نہیں ہوتا اس کی باتیں کچھ اور ہوتی ہیں حکومت میں آکر سب بھول جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوری سوسائٹی میں یہ سیاسی لیڈرشپ کا کام ہے وہ اس کا حل نکالے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین کے مطابق اس سب کا کون ذمہ دار ہے ؟ جس پر ایمان مزاری نے کہا کہ چیف ایگزیکٹیو اور متعلقہ ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی حکومت آئی ہے، وزیر اعظم نے بلوچستان کا وزٹ بھی کیا ہے۔ ابھی اٹارنی جنرل نہیں ہیں، مجھے ہدایات لینے دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ مت کہا کریں یہ ریاست کمزور ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال ہے تو اس سے بچے کیوں متاثر ہوں؟ عدالت نے بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ اور گمشدگیوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیشن ارکان کے نام تجویز کرنے کا کہا جس پر درخواست گزار نے چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی ، افراسیاب خٹک، سمیع الدین بلوچ اور ڈاکٹر عبدالحمید نیئر کے نام تجویز کیے۔
کیس کی مزید سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔