28 اپریل ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو ارشد شریف یا کسی بھی اور صحافی کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کر تے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد مجاز افسران مقرر کریں جو کل ساڑھے 10 بجے پیش ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی ارشد شریف کی درخواست پر سماعت کے دوران پٹیشنر کے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ معاملہ کیا ہے؟
اس پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ارشد شریف کا کل رات فون آیا اور انہوں نے پٹیشن دائر کرنے کا کہا، اس کے بعد سے ان رابطہ نہیں ہو رہا، خدشہ ہے کہ حکومت مقدمات بنا کر گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ارشد شریف نے وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب سے متعلق اسٹوری بریک کی تھی جس کے بعد کل رات سول کپڑوں میں کچھ لوگ ارشد شریف کے گھر گئے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ صحافی صابر شاکر کے خلاف بھی غیر قانونی کارروائی شروع کی جا رہی ہے، مریم نواز اور سعد رفیق کی ٹوئٹس ان کاروائیوں کے حوالے سے آ چکی ہیں۔
درخواست گزار ارشد شریف کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے چارٹرڈ طیارے پر سعودیہ وزٹ کی خبر پر حکومت ناراض ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت میرے خلاف مقدمات بنانے اور گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت ایسا سبق سکھانا چاہتی ہے جو زندگی بھر یاد رہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ٹوئٹس کیے۔
مریم نواز اور خواجہ سعد رفیق کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹس سے کیے گئے ٹوئٹس کے اسکرین شاٹ کو بھی پٹیشن کے ساتھ جمع کرایا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پٹیشنر کی غیر قانونی نگرانی اور ہراساں کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔
علاوہ ازیں ایف آئی نے اس حوالے سے اپنا رد عمل جاری کیا ہے اور ارشد شریف کو ہراساں کیے جانے کی خبروں کو فیک نیوز قرار دیا ہے۔