نسرین باجی۔ گورنر سندھ

نسرین باجی جس روز سندھ کے عظیم صوبے کی گورنر مقرر کی گئیں، وہ ماؤں کا دن تھا۔ وہ بھی چار بچوں کی ماں ہیں۔ دو بیٹے دو بیٹیاں، گورنر ہاؤس ایک ماں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ قریباً پانچ کروڑ اہل سندھ کے لیے ایک آغوش۔ ایک گہوارہ۔ ہر لمحہ ایک مسکراہٹ آنکھوں میں۔ ایک ہنسی زیر لب۔ نرم دم گفتگو۔یہ ہیں نئی گورنر سندھ۔اللہ تعالیٰ انہیں ہمت دے۔ استطاعت دے۔

ملک میں جس وقت ایک انتشار ہے۔ ایک ہنگامہ۔ اس میں ایک خاتون کو رقبے کے اعتبار سے ملک کے دوسرے بڑے۔ ثقافت ادب سے مالا مال صوبے کی گورنری کی تفویض۔ محسوس ہوتا ہے کہ تیرہ مختلف الخیال بلکہ متضاد نظریات رکھنے والی پارٹیوں کا اتحاد چاہے تو اچھے کام بھی کرسکتا ہے۔ 

واہگہ سے گوادر تک ایک کشیدگی ہے۔ ابھار ہے۔ ابال ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی خواتین الزامات اور دشنام کی زد میں ہیں۔ اخلاقیات کا بحران ہے۔ ظفر الحسن لاری جیسے نیک نام بیورو کریٹ کی صاحبزادی۔ پاکستان کی قابل فخر ماہر تعمیرات یاسمین لاری کی ہمشیرہ۔ مطالعے کی شائق۔ ادب و شعر کی مداح۔ جبر و تشدد کے حوالے سے مشہور جماعت ایم کیو ایم کا ایک روشن چہرہ۔

نسرین باجی کو سندھ کے رہنے والوں کی طرف سے مبارکباد تو بنتی ہے۔ امیدیں بھی باندھی جاسکتی ہیں کہ افراتفری اور خلفشار کے ایّام میں ایک اچھی مہتمم اور منتظم صوبے اور ملک میں کچھ ٹھہراؤ اور استحکام لاسکیں گی۔ 

گورنری کے حوالے سے ایم کیو ایم کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد خان 14سال اس گورنر ہاؤس کے مکین رہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے تو ان کی تعیناتی کی تھی۔ ان کے دَور کے بعد صدر آصف علی زرداری کے پانچ سال پھر وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کچھ عرصہ۔ تین مختلف ادوار۔ مختلف سیاسی پارٹیاں۔ ڈاکٹر عشرت العباد کی تقرری کے وقت بھی ناقدین کی طرف سے بہت سے الزامات کے حوالے دیے گئے تھے۔

 مگر ان سب کی وضاحتیں آتی رہیں۔ پھر ڈاکٹر عشرت العباد کی کارکردگی نے انہیں پاکستان کے نظم و نسق کے لیے ناگزیر ثابت کیا۔ ان دنوں کے بارے میں آصف زرداری نے اب تک کچھ کہا نہ میاں نواز شریف نے کہ انہیں کسی کے دباؤپر گورنر برقرار رکھا گیا۔ شہر میں کشیدگی ہوتی تھی تو وہ اپنی جگہ مفاہمت کا کردار ادا کرتے تھے۔ لندن والے بعض اوقات ناراض بھی ہوجاتے تھے۔ پھر یہ وقت بھی آیا کہ ان کی ایک خاندانی شادی میں ایم کیو ایم نے بطور جماعت شرکت نہیں کی۔ایم کیو ایم کے حوالے سے نسرین جلیل صاحبہ کی تقرری بھی اعتراضات کی زد میں ہے۔ لیکن ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے انہیں صلح جو۔ نرم خو پایا ہے۔ جب بھی حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوئی ہے تو ان کا زاویۂ سخن صرف کراچی یا مہاجرت تک محدود نہیں ہوتا تھا۔ 

ان کی آرا میں خطّے کا تناظر بھی ہوتا تھا۔ اور عالمی منظر نامہ بھی۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر معاملے کی تفہیم کی جائے۔ بعض اوقات لندن سے کچھ فیصلوں پر ہمیں حیرت اور افسوس ہوتا تو ان سے رابطے کرتے۔ یہ کہتیں کہ ہم نے تو اس کے برعکس رائے دی تھی۔ لیکن وہاں سے یہی اصرار ہے۔ آپ خود بھائی سے بات کرکے دیکھیں۔ بات ہوجاتی تھی اور اکثر مسئلہ حل بھی ہوجاتا تھا۔

تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اس تاسف کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ مہاجر قومی موومنٹ بعد میں متحدہ قومی موومنٹ کو قدرت نے ایسے سنہری مواقع دیے تھے کہ وہ پورے پاکستان کی مرکزی قیادت بھی سنبھال سکتی تھی۔ یہ تو سارے پاکستانیوں نے دیکھا ہے کہ1988کے بعد ایم کیو ایم ہر حکومت کے لیے ناگزیر رہی ہے۔ ملک میں طاقت کا توازن 90کے پاس رہا ہے۔ ہر وزیر اعظم نے 90 پر حاضری دی ہے۔ یہ مناظر آپ سب کو یاد ہوں گے۔ مڈل کلاس کو آگے لانے والی۔ محنت کشوں کو وفاقی اور صوبائی وزارتیں دلانے والی ایم کیو ایم پھر نظریات اور اصولوں سے قطع تعلق کرکے میکاولی کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر دلوں میں اترنے کی بجائے دلوں سے اترتی رہی۔ بوری بند لاشیں اس کی وجہ شہرت بنتی رہیں۔ کراچی۔ حیدر آباد۔ میرپور خاص۔ نواب شاہ۔ سکھر میں بہت ترقیاتی کام کیے گئے۔ یہ تجربہ بھی ایم کیو ایم نے ہی کیا کہ اپنی یقینی نشستوں سے دوسری زبانیں بولنے والوں کو کامیاب کروایا۔ لیکن تمام قومیتوں کے نمائندوں کو دی گئی انتخابی کامیابیاں۔ تشدد کے غبار میں گم ہوتی رہیں۔

اس روح فرسا ماضی کو اس حد تک یاد کرنا ہی بہتر ہے۔ آج کے حالات میں ایم کیو ایم کا جو سیاسی وزن رہ گیا ہے۔ وہ ان غلط فیصلوں اور بھیانک رویوں کا ہی نتیجہ ہے۔ کتنے عظیم مواقع کھودیے گئے۔ اب اس مڈل کلاس سیاسی تنظیم کے کتنے حصّے بن چکے ہیں۔ اس میں ان کی اپنی قیادت اپنے غلط فیصلوں کا کتنا ہاتھ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا کتنا۔ یہ معروضی تجزیے کا متقاضی ہے۔ اس پر ایک وائٹ پیپر جاری ہونا چاہئے۔90 ان کے پاس نہیں ہے۔ کئی گروپ بن گئے ہیں۔

اب گزشتہ تین انتخابی مدتوں سے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ شہری علاقوں بالخصوص کراچی کے شہریوں کے بہت گلے شکوے ہیں، جن کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ ایم کیو ایم اب صوبے کے ساتھ ساتھ وفاق کی حکومت کا بھی حصّہ ہے۔ اس لیے سندھ کی گورنری ایم کیو ایم کے پاس جانے سے کوئی مخاصمت نہیں ہوگی۔ پھر ایم کیو ایم اور پی پی پی نے اپنا ایک معاہدہ بھی کیا ہے۔ اس لیے اُمید کی جانی چاہئے کہ گورنر ہاؤس میں ایم کیو ایم کی ایک سینئر عہدیدار کی موجودگی کسی کشاکش کا باعث نہیں ہوگی۔ جیسے پی ٹی آئی کے گورنر اور پی پی پی کے وزیر اعلیٰ کے درمیان تنازع اور تصادم رہتا تھا۔ وہ اب نہیں ہوگا۔ گورنر ہائوس ہو یا وزیر اعلیٰ ہاؤس دونوں جگہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔

وزیر اعلیٰ کو بھی چاہئے کہ وہ صرف دیہی سندھ کے نہیں پورے سندھ کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں۔ گورنر ہاؤس میں صرف اُردو ادب کی سرپرستی نہیں۔ سندھی ادب و ثقافت کی پاسبانی بھی ہو۔ نسلی اور لسانی حوالوں سے سندھ میں جو دوریاں بڑھ رہی ہیں، ان کو یہ تیرہ جماعتی اتحاد نسرین جلیل گورنر سندھ کے ذریعے قربتوں میں بدل سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ انجینئر ہیں۔ نسرین جلیل ایک ماہر تعمیرات کی بہن ہیں۔ سندھ میں انجینئرنگ کے مسائل بھی ہیں۔ تعمیرات کے بھی۔ نئی گورنر نرم خو ہیں۔ ایک ماں ہیں۔ دیہی و شہری سندھ مامتا کے طلب گار ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔