12 مئی ، 2022
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہےکہ مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے لہٰذا ریاست کو چاہیے سیاسی قیادت کو بٹھائے اور پالیسی بنائےکہ مذہب کو سیاست میں نہیں لانا کیونکہ سیاسی تنازعات کے لیے مذہب کا استعمال درست نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے مسجد نبوی واقعے پر فواد چوہدری، قاسم سوری اور شہباز گل کی درخواستوں پر سماعت کی جس سلسلے میں فواد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ سیاسی قیادت ہی سوسائٹی میں تبدیلی اور صبر لا سکتی ہے، مذہب کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا خود توہین مذہب ہے، اس طرح 2018 میں بھی ہوا اور پہلے بھی ہوتا رہا، یہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک غیر ملکی کو سیالکوٹ میں مارا گیا اور مشال خان کا واقعہ بھی سامنے ہے، یہاں پر بھی جو کیسز درج ہو رہے ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ مذہبی جذبات کا احترام ہے مگر ریاست کی بھی ذمہ داری ہے، مدینہ منورہ میں واقعہ ہوا، ریاست کا کام ہے یقینی بنائے کہ مذہبی استحصال نہ ہو، اس کورٹ کے پاس بھی ایسی پٹیشن آئی تھی جسے خارج کر دیا، اگر تاثر ہے کہ سیاسی طور پریہ ہورہا ہے تویہ تاثر زائل کرنا بھی ریاست کا کام ہے، ریاست نے ماضی میں مذہب کی بنیاد پر اس طرح کی حرکتیں کی ہیں، لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالاگیا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے لہٰذا ریاست کو چاہیے سیاسی قیادت کو بٹھائے اور پالیسی بنائےکہ مذہب کو سیاست میں نہیں لانا کیونکہ سیاسی تنازعات کے لیے مذہب کا استعمال درست نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے، آئین پاکستان ہی لوگوں کو اکٹھا رکھ سکتا ہے، ہم آئین کو سپریم نہیں سمجھتے ورنہ آج ملک میں یہ حالات نہ ہوتے، ادارے بھی اسی آئین کے تابع ہیں، سب کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیے، آئین کے تحت ہر ادارہ جوابدہ ہے۔