14 مئی ، 2022
عمران خان بھی اب تو یہ اعتراف کررہے ہیں اور شاہ محمود قریشی بھی کہ پاکستان معاشی لحاظ سے دیوالیہ ہونے کو ہے۔
سفارتی اور معاشرتی حوالوں سے بھی پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن اس کا اعتراف وہ دونوں بوجوہ نہیں کررہے بلکہ دن رات اسے مزید تباہ کرنے میں لگے ہیں تاہم سرِدست سب سے اہم مسئلہ جوسر پہ کھڑا ہے وہ معیشت کا ہے اور اس میں بھی بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرکے اچانک مہنگائی میں اضافہ کر کے عوام کے قہروغضب کا خطرہ مول لیا جائے یا پھر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا۔ اسی الجھن کا حل نکالنے کے لیے اس وقت مسلم لیگ(ن) کی قیادت لندن میں سرجوڑ کر بیٹھی ہے۔
ایک سوچ یہ ہے کہ عمران خان کے گند کو اپنے سر لینے کے بجائے فوری انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے اور دوسری رائے اس کے برعکس یہ ہے کہ پہلے معاملات کو کسی حد تک کنٹرول کیا جائے اور ساتھ ہی عمران خان کو ایکسپوز بھی کیا جائے اور پھر انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔
مجوزہ راستوں میں بہتر راستہ کونسا ہوسکتا ہے؟ اس حوالے سے اپنی رائے دینے سے قبل دو وضاحتیں پیش کرتا چلوں۔ پہلی وضاحت یہ ہے کہ حالیہ بحران کی اصل جڑیں گزشتہ الیکشن کو سلیکشن بنانے میں پیوستہ ہیں۔ تب اگر نیب، میڈیا، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دبائو ڈال کر جعلی اسمبلیاں تشکیل نہ دی جاتیں تو آج ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
الیکشن سے قبل مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا کہ دیگر اینکرز کی طرح میں بھی ”پاکستان کو ووٹ دو“ کا پیغام ریکارڈ کرواؤں لیکن میں استعفیٰ دینے کو تو تیار ہوا تاہم وہ پیغام ریکارڈ نہیں کروایا۔
اگر قبل از انتخابات اور پولیٹکل انجینئرنگ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی جب پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا اور آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا گیا تو ان انتخابات کی کوئی وقعت نہیں بنتی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ 2018 کے انتخابات میں دوسرے بھی نہیں بلکہ تیسرے نمبر پر آنے والوں کو منتخب ڈکلیئر کیا گیا اور پھر انہیں وزیر مشیر بھی بنایا گیا۔
چنانچہ میرے نزدیک اسمبلیاں اور ان اسمبلیوں سے بننے والا سیٹ اپ جعلی تھا اور جعلی ہے۔ جعلی اسمبلیوں کا لیڈر بدلنے سے ان کے جعلی ہونے کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ میں عمران خان کی حکومت کو بھی ڈی فیکٹو سمجھتا تھا اور موجودہ سیٹ اپ کو بھی۔
چنانچہ اصولی موقف میرا کل بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی بحران تب ختم ہوسکتا ہے جب آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ کب اور کیسے؟ سردست نئے انتخابات کیلئے ایک حوالے سے فضا بہتر ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر آئینی رول تک محدود ہوکر سیاست، عدالت اور صحافت میں مداخلت سے فی الوقت تائب ہوچکی ہے چنانچہ گزشتہ پانچ برسوں میں پہلی مرتبہ ہمیں الیکشن کمیشن، عدلیہ اور میڈیا آزادی کے ساتھ کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو جمہوریت اور آزادانہ انتخابات کیلئے ضروری ہے۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ فیصلہ کرنے میں مہلت کم ہے۔ اس دوران اگر حکومت اسمبلیاں توڑ دیتی ہے تونگران حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ دوسری طرف عالمی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے نگران حکومتوں کے ساتھ طویل المیعاد منصوبہ بندی سے گریز کرتے ہیں۔ تب آئی ایم ایف (واضح رہے کہ خود شوکت ترین کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے انتہائی نامناسب شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا ہے)۔
نگران حکومتوں کو عوام کی زیادہ فکر بھی نہیں ہوتی چنانچہ یا تو وہ آئی ایم ایف کی وہ تمام شرائط تسلیم کرلے گی جو ماضی میں عمران خان حکومت ان کے ساتھ مان چکی ہے اور یا پھر اگر فیصلہ نہیں کر پاتی تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو مشکل فیصلے عمران خان نہ کرسکے اور اب قدآور شخصیات اور بڑی پارٹیوں کی مشترکہ حکومت نہیں کرسکتی، وہ مشکل فیصلے ایک نگران حکومت کیسے کرسکے گی؟ جبکہ جون کا مہینہ قریب ہے اور جون میں بہر صورت نیا بجٹ پیش کرنا ہوگا۔
دوسری بڑی رکاوٹ الیکشن کمیشن ہے۔ الیکشن کے حوالے سے بنیادی فیصلے الیکشن کمیشن نے کرنے ہیں۔ اگرچہ عمران خان اب بھی ایمپائر اور فواد چوہدری چوکیدار سے مطالبات کررہے ہیں لیکن آئین کی رو سے الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان میں یہ تحریری موقف پیش کر چکا ہے کہ اسے انتخابات کی تیاری اور نئی حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم سات ماہ درکار ہیں۔ یوں اگر سات ماہ تک انتخابات کی تیاری نہیں ہوسکتی تو پھر کیا ہوگا؟
تیسری بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر خود عمران خان کا مقرر کردہ ہے لیکن اس وقت وہ دن رات ان کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ ان کے دفتر کے سامنے مظاہرے کررہے ہیں۔ ان پر جانبداری کا الزام لگارہے ہیں حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ان کے لیے اسی طرح کے غیرقانونی کام کرے جس طرح کہ سردار رضا کا الیکشن کمیشن کررہا تھا۔
گویا وہ الیکشن کمیشن کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔ اب اگر نتائج عمران خان کی مرضی کے خلاف آتے ہیں تو وہ شور مچائیں گے اور گزشتہ الیکشن کی طرح سلیکشن ہوتی ہے تو باقی جماعتیں تسلیم نہیں کریں گی۔ اس لیے انتخابی اصلاحات کئے بغیر انتخابات میں جانا ملک کو انارکی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
میں اس حقیقت سے بھی واقف ہوں کہ مسلم لیگ(ن)، جے یو آئی، اے این پی، پختونخوا میپ، ایم کیوایم اور دیگر قوم پرست جماعتوں کو فوری انتخابات سوٹ کرتے ہیں جبکہ خفیہ ایجنسیوں کے سرویز بھی یہ بتارہے ہیں کہ فوری انتخابات کی صورت میں واضح اکثریت مسلم لیگ(ن) کو حاصل ہوگی۔
لیکن اب اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے یہ غلطی کی ہے کہ پہلے جعلی اسمبلیوں میں بیٹھ گئی ہیں اور اب عدم اعتماد بھی لے آئی ہیں تو پھر صرف پارٹی مفاد کو نہیں بلکہ قومی مفاد کو مدِنظر رکھیں۔ ہمت پکڑیں اور ملکی حالات کو مدِنظر رکھ کر مشکل فیصلے کریں۔ سوشل میڈیا اور جلسوں کی دنیا الگ جبکہ زمینی وسیاسی حقائق کی دنیا الگ ہے۔
عمران خان خودکو بھی اس کا اندازہ ہے۔ وہ صرف نفسیاتی دبائو ڈال رہے ہیں۔ وہ خود فوری انتخابات میں سنجیدہ ہوتے تو جلسے جلوسوں کی بجائے پختونخوا اسمبلی تحلیل کرتے۔ قومی اسمبلی سے جعلی طریقے سے استعفے دینے کی بجائے اپنے استعفے موجودہ اسپیکر کے حوالے کرتے۔
پنجاب، سندھ، بلوچستان کی اسمبلیوں اور سینیٹ سے بھی استعفیٰ دیتے لیکن وہ ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈرا بھی رہے ہیں لیکن ساتھ خود بھی ڈر رہے ہیں۔ اس لیے کسی قسم کے دبائو میں آئے بغیر حکومت کو جراتمندانہ فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر یہ ذمہ داری اپنے سر لی ہی کیوں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔