Time 20 جون ، 2022
بلاگ

بلاول بھٹو: فرزند پاکستان، فرزند ایران

فوٹو: اہرانی میڈیا
فوٹو: اہرانی میڈیا

وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد بلاول بھٹو نے امارات، امریکا، چین اور سوئٹزرلینڈ کے بعد ایران کا دورہ کیا ہے۔ 

اس دورے میں پاکستان کو حاصل کیا ہوا؟، اس پر بات بعد میں، پہلے یہ کہ بلاول بھٹو نے اس دورے میں خود کو فرزند پاکستان ہی نہیں فرزند ایران بھی ٹہرایا۔

بلاول بھٹو کی نانی یعنی پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو 1929 میں ایران کے صوبے اصفحان میں پیدا ہوئی تھیں۔ان کے والد تاجر تھے جن کا تعلق حریری گھرانے سے تھا اور والدہ کرد تھیں۔ یہ ایرانی گھرانا پہلے ممبئی اور پھر تقسیم ہند کے بعد کراچی منتقل ہوگیا تھا۔

اپنی زندگی کے آخری دو عشرے بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی بے نظیربھٹو کےساتھ دبئی میں گزارے۔

پرویز مشرف دور میں خود ساختہ جلاوطن بے نظیر بھٹو جب سیاسی لحاظ سے قدرے زیادہ متحرک ہوئیں اور سابق صدر پرویز مشرف سے ان کی ڈیل اور این آر او کی باتیں گردش کرنے لگیں تو مجھے کئی بار بے نظیر بھٹو سے ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔

وطن واپسی سے پہلےسن 2007 میں جیونیوز کو اپنے آخری انٹرویو میں بے نظیربھٹو نے مجھے اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کی صحت کےبارے میں بھی بتایا۔ بھول اور نسیان کو نعمت قرار دیتے ہوئے کہنے لگیں بعض اوقات آپ تلخ یادوں کو بھلانا چاہتے ہیں مگر بھلا نہیں پاتے، بیگم صاحبہ نے شوہر اور بیٹوں کی ناگہانی موت کے ایسے صدمے سہے ہیں کہ شاید خدا نے اسی لیے انہیں ایسا مرض دیا کہ وہ یہ غم بھی بھول جائیں۔

میں نے پوچھا کہ کیا بیگم نصرت بھٹو لوگوں سےملتی ہیں؟ بے نظیر کہنے لگیں کہ 'بیگم صاحبہ کے عزیزو اقارب انہیں دیکھنے کے لیے آتے ہیں'۔ بیگم نصرت بھٹو کے ان عزیزواقارب کا تعلق ایران ہی سے تھا۔

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیس الساداتی سے ملاقات میں بلاول بھٹو نے جب خود کو فرزند پاکستان اور فرزند ایران قرار دیا تو اس جملے کے پس منظر میں بیگم نصرت بھٹو تھیں اور شاید ان کی دوست بیگم ناہید مرزا بھی جو پاکستان کی پہلی خاتون اوّل بنیں۔

پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی بیگم ناہید کے والد امیر تیمور سے منسوب قبیلے کے سربراہ تھے۔ ان کا تعلق خراسان سے تھا جبکہ والدہ ایران کے فتح علی شاہ قاجار شاہی گھرانے کی فرد تھیں۔ بیگم ناہید سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو کی رشتہ دار تو نہیں، سہیلی ضرور تھیں، انہی بیگم ناہید کی بدولت اسکندر مرزا کی حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو پہلی وزارت ملی تھی۔ بلاول کا خود کو فرزند ایران کہنا شاید اس احسان کی یاد بھی تھی جو بیگم ناہید کا بیگم نصرت بھٹو پر تھا۔

بلاول بھٹو کے لیے یہ دورہ ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع بھی بنا۔ دو روزہ دورے کے موقع پر بلاول بھٹو کو تحفے میں شہید بے نظیر بھٹو کے دورہ مشہد کی یادگار تصاویر کی البم دی گئی۔ 

کراچی میں ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضے پر بے نظیر بھٹو کی 32 برس پہلے حاضری کی ان میں سے چند تصاویر سابق وزیراعظم کی برسی کے موقع پر ٹوئٹ بھی کی تھیں۔

حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے بلاول بھٹو اور ان کے وفد میں شریک افراد کو اپنے گھر بھی مدعو کیا۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے وہ بولے کہ جب 1977 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں بھٹو کو قید کیا گیا تو وہ نوجوان تھے مگر مقدمے کی کارروائی سے باخبر رہا کرتے تھے اور جب غیر منصفانہ فیصلے کے نتیجے میں بھٹو کو پھانسی دیدی گئی تو شدید صدمے سے دوچار ہوئے اور بے نظیر بھٹو کو جس انداز سے قاتلانہ حملے میں مارا گیا وہ بھی نہایت افسوس ناک تھا۔

انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کابھی ذکر کیا جو دونوں ملکوں میں یکساں مقبول اور قابل احترام ہیں۔بولے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بلاول بھٹو وزیرخارجہ بنے ہیں اور دعا کی کہ اللہ انہیں اس سے بڑھ کر رتبہ عطا کرے۔ساتھ ہی تبرک کے طور پر بلاول بھٹو کو روضہ امام سے ایک متبرک کپڑا تحفہ میں دیا۔

یہ وہ تحفہ ہے جو آج تک کسی سربراہ حکومت کو بھی نہیں دیا گیا۔متولی نے دعا کی کہ مذہب اور ثقافتی رشتوں سے جڑے دونوں ملکوں کے عوام میں قربت پیدا ہو۔

فارسی تہذیب بے نظیر بھی موجود تھی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی بڑی بیٹی کا نام رکھنے کیلئے بھی فارسی لفظ بخت ور چنا تھا۔ بخت ور کو ملک میں لوگ بختاور کے نام سے جانتے ہیں۔ سن 2004 میں جب سابق صدر آصف زرداری کو اس دور کے صدر پرویز مشرف نے ضمانت پر رہائی دی تو دبئی میں بے نظیر بھٹو کے گھر عزیز و اقارب جمع تھے، میں نے آصفہ، بلاول اور بختاور کے انٹرویو کا پوچھا تو بے نظیر نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کا نام بختاور نہیں 'بخت ور' ہے، قریب بیٹھی ایک مہمان چونکیں اور پوچھا 'آپ بختاور کہہ رہی ہیں یا بخت ور' بے نظیر بولیں بخت ور اور پھر وضاحت کی کہ اس کا مطلب ہے قسمت لانے والی۔

سوال یہ ہے کہ ننھیالی تعلق پر خود کو فرزند ایران کہنے والے بلاول بھٹو کے اس دورے کا نتیجہ کیا نکلا؟اور کیا فرزند پاکستان اور فرزند ایران ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں اب کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات میں استعمال کیے گئے ان الفاظ کو تہذیب کی علامت سے زیادہ تصور کیا جانا دانش مندی نہیں۔

بیگم نصرت بھٹو ایرانی خاتون ضرور تھیں مگر والدین پاکستان آکر بسے تو وہ پاکستانی روایت ہی میں رچ بس گئیں، زمانے کی ستم ظریفی کہ 1969 میں اسکندر مرزا جلاوطنی کے دوران ہارٹ اٹیک سے لندن میں چل بسے تو یحیٰی خان نے تدفین تک نہ ہونے دی اور پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی تدفین ایران میں ہوئی اور وہ بھی پورے سرکاری اعزاز کےساتھ جبکہ پہلی خاتون اوّل بیگم ناہید نے بیوگی آبائی وطن میں نہیں، لندن میں گزاری، صرف ایک بار 1998 میں پاکستان لوٹیں اور وہ بھی اپنی سہیلی بیگم نصرت بھٹو کی بیٹی بے نظیر کے کہنے پر۔

سفارت کاری سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ دو ملکوں کے تعلقات خاندانی پس منظر سے نہیں ،سیاسی،معاشی اور دفاعی ضروریات کے تحت طے کیے جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ایرانی حکام کو اصل پیغام خود کو فرزند پاکستان اور فرزند ایران کہنے سے نہیں دیا۔ جو بات بلاول بھٹو نے دو ٹوک انداز سے واضح کی وہ یہ کہ پاکستان حکومت ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق عالمی مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی راہ دیکھ رہی ہے اور یہی چیز دوطرفہ تعلقات میں وسعت اور رابطے بڑھانے کے لیے بہتر فضا پیدا کرے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔