بلاگ

لوٹوں کا انتخاب اور سیاست کی رسوائی

سنتے آئے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر اب معلوم ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کی آنکھوں میں شرم وحیا اور اذہان و قلوب میں غیرت و حمیت بھی نہیں پائی جاتی۔پی ٹی آئی کے منحرف ارکان جوپنجاب اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوگئے، انکے حلقوں میں ضمنی الیکشن ہورہا ہے اور بیچاری سیاست بے حجاب ہونے کے بعد بدنام زمانہ طوائف کی طرح منہ چھپاتی پھرتی ہے۔

بلاتمہید ،سیاست کی رسوائی وجگ ہنسائی سے متعلق تفصیل آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔پہلے تو یہ جان لیجئے کہ مینڈیٹ چرائے جانے کا فسانہ جس پر نوحہ گروں نے قیامت برپا کردی ،اس کی حقیقت کیاہے؟جن 20ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کیا گیا ،ان میں سے کم ازکم9ارکان اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ الیکشن بلے کے انتخابی نشان پر نہیں لڑا بلکہ پی آٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دینے کے بعد ایوان میں پہنچے اور پھر اسی طرح پی ٹی آئی میں شامل ہوئے جس طرح کچھ عرصہ قبل منحرف ہوئے۔ 

PP217ملتان سے آزاد امیدوار کے طور پر سلمان نعیم نے شاہ محمود قریشی کو پچھاڑا،پی پی 218ڈیرہ غازیخان سے محسن عطا کھوسہ نے پی ٹی آئی کے امیدوار سیف الدین کھوسہ کو شکست دی،PP282لیہ سے محمدطاہر رندھاوا آزاد امیدوار کے طور پرکامیاب ہوئے،PP237 بہاولنگر سے فدا حسین کالو نے بھی 2018ء کے عام انتخابات میں بطور آزاد امیدوار کامیابی حاصل کی،جھنگ میں دونوں صوبائی حلقوں میں پی ٹی آئی ہار گئی ،PP125سے فیصل حیات جبوانا جبکہ PP127سے مہر محمد اعظم آزاد امیدوار کے طور پرالیکشن جیتے ،اسی طرح PP90بھکر سے سعید اکبر نوانی ،PP83خوشاب سے ملک غلام رسول سنگھا اور PP7راولپنڈی سے راجہ صغیر آزاد امیدوار کے طورصوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔

انتخابی سیاست کی اس آپادھاپی میں ایک طرف مسلم لیگ (ن) پرانے اور مخلص ساتھیوں کو نظر انداز کرکے آخری وقت میں وفاداریاں بدلنے والے ’’الیکٹیبلز‘‘ کی حمایت کر رہی ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف بے پیندے کے لوٹے جمع کرکے منحرف ارکان کیخلاف ’’اصولی سیاست‘‘کی لڑائی لڑ رہی ہے۔

مثال کے طور پر PP7راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن)کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کے صاحبزادے راجہ محمد علی جو محض دو ہزار کے ووٹوں سے الیکشن ہار گئے تھے ،انہیں ٹکٹ دینے کے بجائے مسلم لیگ (ن) منحرف ایم پی اے راجہ صغیر احمد کی کامیابی کیلئے کوشاں ہے۔پی ٹی آئی نے بھی یہاں سے 40ہزار ووٹ لینے والے غلام مرتضیٰ ستی کو ٹکٹ نہیں دیا بلکہ پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے کرنل (ر)شبیر اعوان کو امیدوار نامزد کیا ہے۔PP83خوشاب جہاں سے مسلم لیگ (ن)کے امیدوار غلام رسول سنگھا سابق وزیر ملک آصف بھا کو شکست دیکر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے ،اب ان کے بھائی امیر حیدر سنگھا کو مسلم لیگ(ن)کا ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ 47764ووٹ لینے والے آصف بھا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پی پی 90بھکر میں تو صورتحال بہت مضحکہ خیز ہے۔عرفان اللہ نیازی جو مسلم لیگ (ن)کے سابق ایم پی ایز مرحوم نجیب اللہ اورانعام اللہ کے بھائی ہیں ،پارٹی کے ضلعی جنرل سیکریٹری تھے اور2018ء کے الیکشن میں شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا،اب بلے کے انتخابی نشان پر میدان میں ہیں اور مسلم لیگ (ن)یہاں سے 4 مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والےرشید اکبر نوانی کے بھائی سعید اکبر نوانی کی انتخابی مہم چلارہی ہے جو 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو شکست دیکر ساتویں مرتبہ ایم پی اے بنے تھے ۔

جھنگ کے دونوں حلقوں میں مسلم لیگ(ن)کسی قطار شمار میں نہیں تھی،اب منحرف ارکان کے ذریعے ووٹ کو عزت دلوائی جا رہی ہے۔لودھراں کے حلقہ pp224اورpp228میں بھی حق و باطل کے معیارات بدل چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے زوار وڑائچ اب مسلم لیگ (ن)کے امیدوار ہیں جبکہ شیر کے انتخابی نشان پر مقابلہ کرنے والے عامراقبال شاہ اب بلا لہراتے پھر رہے ہیں۔

عامر اقبال شاہ ، ایم این اے اقبال شاہ کے صاحبزادے ہیں ،یہ وہی اقبال شاہ ہیں جنہوں نے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو شکست دیکر ووٹ کو عزت دلوائی تھی مگر پارٹی نے انہیں عزت نہیں دی۔دوسرے حلقے PP228 میں بھی امیدوار بد ل گئے ہیں۔نذیر خان بلوچ جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے تھے ،اب مسلم لیگ (ن)کے امیدوار ہیں جبکہ 4ہزار ووٹوں سے ہارنے والے مسلم لیگ (ن)کے امیدوار رفیع الدین شاہ بخاری پی ٹی آئی میں شامل تو نہیں ہوئے البتہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔قصہ مختصریہ کہ کیا سنائیں اور کیا بتائیں ،ہر حلقے میں کم وبیش یہی صورتحال ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ (ن)کے منحرف ارکان میں سے جلیل شرقپوری اور غیا ث الدین لوٹ آئے ہیں۔ اس سیاسی دنگل میں دونوں طرف وہ لوٹے ہیں جن کا ضمیر حسب ضرورت کسی بھی وقت جگایا جاسکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔