Time 03 جولائی ، 2022
بلاگ

تین اصول جو مسلم دنیا کو اپنا لینے چاہئیں

1905کو معجزات کا سال کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ سال ہے جب پچیس برس کے البرٹ آئن سٹائن نے تین مضامین لکھ کر فزکس کے ایک جریدے کو بھیجے۔ پہلے مضمون میں آئن سٹائن نےایٹم کی ساخت اور حجم پر روشنی ڈالی اور ثابت کیاکہ ایٹم کے بارے میں دیموکریتس کے نظریات درست تھے ۔ دوسرا مضمون نظریہ اضافیت کے بارے میں تھا ، یہ وہ نظریہ تھا جس نےنیوٹن کے کلاسیکی قوانین کو تبدیل کر دیا ، آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ کائنات میں روشنی کی رفتار یکساں رہتی ہے ۔

 کوئی شے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی ، مادے کو توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ،وقت کوئی آفاقی شے نہیں، کائنات میں کسی مخصوص وقت کا تعین کرنا ممکن نہیں۔آئن سٹائن کے اِس مضمون کے بعدفزکس وہ نہ رہی جو نیوٹن کے دور سے پڑھائی جاتی تھی ۔اِس کے علاوہ آئن سٹائن نے جو تیسرا مضمون بھیجا وہ کوانٹم مکینکس سے متعلق تھا ، اِس میں آئن سٹائن نے بتایا کہ روشنی فوٹون پر مشتمل ذرات کا مجموعہ ہے ، یہ ذرات توانائی کے پیکٹ کی شکل میں ہوتے ہیں ، روشنی کی فریکوئنسی کا انحصار اِن ذرات کی تعداد کی بجائی اِن کی توانائی پرہوتا ہے ۔ بظاہر یہ بات نہات سادہ تھی مگر یہاں سے کوانٹم تھیوری نےجنم لیا اور سائنس دان ایک نئی کائنات میں داخل ہوگئے جہاں فزکس کے مروجہ قوانین کام نہیں کرتے تھے ۔اِس تیسرے مضمون پر آئن سٹائن کو فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔

لیکن ہمارا موضوع آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت یا کوانٹم تھیوری نہیں ، ہمارا موضوع ایک ایسا شخص ہے جس نے آئن سٹائن کو بھی غلط ثابت کردیا۔اِس شخص کا نام جیورجس لی ماترے (Georges Lemaitre) تھا۔یہ ایک نوجوان پادری تھا جس نے ایڈون ہبل سے بھی پہلے یہ جان لیا تھا کہ کائنات بھی پہلے کسی زمانےمیں سُکڑی ہوئی ہوگی اور پھر کسی عظیم دھماکے کے نتیجے میں پھیلی ہوگی ۔ اِس نظریے کو آج ہم بگ بینگ کہتےہیں ۔

 لی ماترے ایک عاجز قسم کا انسان تھا، اُس نے کبھی یہ دعوی ٰ نہیں کیا کہ کائنات کے سکڑنے یا پھیلنے کا نظریہ سب سے پہلے اُس نے دیا تھا ،ہم یہ بات آج ایڈون ہبل سے منسوب کرتے ہیں ۔ کائنات کے پھیلاؤ سے متعلق آئن سٹائن بھی تشکیک کا شکار تھا اور اِس نظریے کا حامل تھا کہ کائنات جامد ہے ، مگرپھر اُس کی ملاقات لی ماترے سے ہوئی جس نے اسے قائل کرلیا کہ ایسا نہیں ہے اوربیسویں صدی کے جینئس نے بلا چون و چرا اپنی غلطی تسلیم کرلی۔

مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ کائنات کو جامد سمجھتے ہوئے آئن سٹائن نےاپنی ’مساوات ‘ میںکاسمولوجیکل کانسٹنٹ بھی متعارف کروایا تھا مگر اب جبکہ کائنات جامد نہیں رہی تھی تو آئن سٹائن کے خیال میں یہ ضروری تھا کہ کاسمولوجیکل کانسٹنٹ سے بھی جان چھڑا لی جائے ۔ تاہم لی ماترے نےیہاں بھی اُس سے اتفاق نہیں کیا اور ’آئن سٹائن کو سمجھایا‘ کہ ایک پھیلتی ہوئی کائنات میں بھی کاسمولوجیکل کانسٹنٹ کی ضرورت رہے گی اور اِس کانسٹنٹ کی مدد سے کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کا تعین کرنا ممکن ہوگا ۔یہاں بھی آئن سٹائن غلط تھا اور لی ماترے کی بات درست تھی ۔

آج سائنس دان اِس رفتارکو جان چکے ہیں ۔ جب بگ بینگ کے نظریے کی بازگشت پاپائے اعظم تک پہنچی تو اُس نے ایک عوامی اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سائنس نے ثابت کردیا کہ بائبل میں بیان کردہ کائنات کی تخلیق کا نظریہ درست تھا۔یہ 1951کی بات ہے ۔ لی ماترے کو جب اِس بات کا علم ہوا تواسے بے حد تشویش ہوئی ، اُس نے پوپ سے رابطہ کیا اور اسے ’سمجھایا‘ کہ وہ کائنات کی تخلیق کی مذہبی تعبیر اور بگ بینگ کے باہمی تعلق پر تبصرے سے گریز کرےکیونکہ سائنس اور مذہب کو یوں خلط ملط کرنا حماقت ہے، اُس نے کہا کہ بائبل طبیعات کے متعلق کچھ نہیں جانتی اور سائنس خدا سے متعلق کچھ نہیں جانتی ۔پوپ نے لی ماترے کی بات مان لی اور اُس کے بعد کلیسا نے اِس موضوع پر کبھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔اِس ایک شخص نےآئن سٹائن اور پاپائے اعظم دونوں کو غلط ثابت کیا۔

یہ سوال اکثر پوچھا جاتاہے کہ مسلم دنیا سائنس میں ترقی کیوں نہیں کر سکی ؟ اِس سوال کا جواب آئن سٹائن ، لی ماترے اور پاپائے اعظم کی اِس کہانی میں پوشیدہ ہے ۔آئن سٹائن نے کوانٹم مکینکس سے متعلق جب اپنا مضمون تحریر کیا تو اُس میں ایسے الفاظ استعمال کیے جنہیں پڑھ کر لگتا ہے جیسے کوئی شخص بہت عاجزی اور ہچکچاہٹ کےساتھ بات کر رہا ہو،اسی قسم کاطرز تحریر ہمیں ڈارون کی کتاب میں بھی ملتاہے جس میں ڈارون نے اپنے کام کے حوالے سے کوئی کریڈٹ لینے کی بجائے جا بجا یہ کہاہے کہ جو باتیں میں نے لکھی ہیں وہ مجھ سے پہلے بھی فلاں فلاں لوگ کرچکے ہیں ۔

 مائیکل فیریڈے اور نیوٹن بھی ایسے ہی سائنس دان تھے جنہوں نے بلند بانگ دعوے نہیں کیے بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ اپنی تحقیقات دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ لی ماترے کا بھی یہی حال تھا ، اُس نے تو بگ بینگ والا سہرا باندھنے کی کوشش بھی نہیں کی جس پر سوا ئے اُس کےکسی اور کاحق نہیں تھا ۔ سو میرا یہ خیال ہے کہ خدا کو عاجزی بہت پسند ہے اور وہ اپنے خزانے سے علم کے موتی اُسی کونوازتا ہے جو اِس صفت کا حامل ہو۔ اسی سے جڑی ہوئی دوسری صفت اپنی غلطی تسلیم کرنا ہے ۔ 

آئن سٹائن سے بڑا کوئی سائنسی دماغ آج تک پیدا نہیں ہوا، آئن سٹائن اگرایک نوجوان پادری کے کہنے پر اپنی غلطی تسلیم کر سکتا ہے تو ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں ، مگر حال ہمارا یہ ہے کہ چار کتابیں پڑھی نہیں ہوتیں اور اِس قطیعت کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں جیسے معاذ اللہ ہمیں الہام ہوتا ہو۔یہ سائنسی سوچ کی نفی ہے ، سائنس میں اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو سائنسی انداز فکر اپنانا ہوگا، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ ہمارا سوچنے کا انداز جاہلانہ ہواور ہم توقع یہ کریں کہ کائنات کے راز گھر بیٹھے ہم پر آشکار ہو جائیں گے ۔ 

آخری بات، ہمیں مذہب اور سائنس کو آپس میں گڈ مڈ کرنے کی عادت ترک کرنا ہوگی،کیونکہ مذہب ہمیں ایک آفاقی پیغام دیتا ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ۔لہٰذا جب بھی ہم کسی نئی سائنسی دریافت کے بارے میں یہ کہہ کر کریڈٹ لیتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی بتا دی گئی تھیں تو ہم دراصل اپنے مذہب کو گویا سائنس کا محتاج بنا دیتے ہیں ۔ لی ماترے نےبھی پوپ کو یہی بات سمجھائی تھی کہ اگر اتفاقاً آج بگ بینگ کا نظریہ بائبل سے مطابقت رکھ رہاہے تو ضروری نہیں کہ آئندہ برسوں کی سائنسی تحقیق بھی بائبل میں کہی ہوئی باتوں کے مطابق ہی ہو۔ یہ بات پاپائے اعظم کو سمجھ آ گئی تھی ۔ ہمیں بھی سمجھ لینی چاہیے ۔

نوٹ:اِس کالم میں دیے گئے حقائق ماہر طبیعات Carlo Rovelli کی کتاب سے لیے گئے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔