مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ ہماری سوچ اور طرز زندگی کا ہے

گذشتہ کالم میں بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے غیر ضروری اخراجات میں کمی پر ضرور دیا گیا تھا۔ اس کالم میں ذرا تجارتی خسارے میں کمی کے طریقوں پہ بات کرتے ہیں۔ 

حکومتی ذرائع اور عالمی ادارے تجارتی خسارہ میں کمی کرنے کے لئے برآمدات(exports ) بڑھانے پہ زور دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف پیداوار بڑھا کر برآمدات میں اضافہ کرکے ہی تجارتی خسارہ کو کم کیا جاسکتا ہے؟ یا غیر ضروری اور غیر اہم درآمدات کے استعمال کو روک کر ، اور وہ درآمدات جو ہمارے ملک میں ذرا سی محنت کے بعد بآسانی بنائی جاسکتی ہوں ان کو ملک کے اندر ہی بنایا جائے۔ کیا ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ 

اب آئیں ان کا جائزہ لیتے آج کل خوبصورت بننے کا بہت رواج ہے۔ چاہیے مرد ہو یا عورت ، الغرض خوبصورت نظر آنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ اس کے لئے جتنا ممکن ہو بیرونی ممالک کی بنی ہوئی( branded) اشیاء کو استعمال کیا جائے تاکہ جلد ( skin) خراب نہ ہو۔ ہم بہت زیادہ "اسکن کانشیس" skin conscious ہوچکے ہیں۔ لیکن جب ان خوبصورت بنانے والی چیزوں کے اجزاء ingredients کو غور سے پڑھیں تو پتا چلتا ہے، " aloe vera extractکے ساتھ، کبھی لکھا ہوتا ہے apricot extract, تو بھی peach extract, تو کبھی almond extract, کیا گہیکوار یعنی aloe Vera, خوبانی، آڑو، بادام کیا سب ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتے ؟ کیا ان کی رسائی عام آدمی تک نہیں ہوتی؟ ایسا تو بالکل نہیں ہے۔ 

اصل میں ہمارے مزاج میں ہے کہ جب ہم سو کر اٹھیں تو ہمارے سرہانے ایمپورٹڈ موبائل ہو، باتھ روم جائیں تو ساری accessories and fixtures imported ہوں۔ باہر نکلیں تو ہمارے wardrobe میں بھی imported branded لباس ہوں۔ گھر میں فرنیچرز بھی باہر ہی کے ہوں۔ گاڑی بڑی سی imported ہو تو کیا ہی ٹور ہوگی۔ بچوں کے اسکول کی کتابیں، اسٹیشنریز، لنچ باکس، پانی کی بوتل، سب imported ہونے چاہئیں تاکہ دوسرے بچوں کے سامنے ان کے بچوں کا رعب قائم ہوجائے۔ بس ہم سب کا حاصل صرف اور صرف دوسروں کو متاثر کرنا ہے۔ ہمیں اس چیز سے فائدہ ہو نہ ہو لیکن دوسروں کو متاثر کرنا بہت ضروری ہے۔

بالکل اسی طرح پاکستان کا علاقہ سوات نارنگی orange کی پیداوار کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ لیکن ہم پاکستانی orange کے نام پر Tang وہ بھی imported پینا پسند کرتے کیونکہ ایمپورٹڈ tang کا taste پاکستانی tang سے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ حد ہوگئی قدرتی اشیاءکو چھوڑ کر کیمیکل کھانا پینا ہماری عادت ہوچکی ہے کیوں taste پہ compromise نہیں کیاجاسکتا۔

جس قوم کو اپنی جلد کی حفاظت کی اتنی فکر ہو لیکن صحت کی فکر نہ ہو۔ بڑی عجیب بات ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹرز کے بقول اتنی کیمیکل ملی ہوئی خوراک سے لوگوں میں گردے کی بیماری، جلد کی بیماری، دل کی بیماری، بلند فشار خون یعنی بلڈ پریشر، کولیسٹرول ہورہی ہیں۔ لیکن ہم پر کوئی اثر نہیں۔ نہ ہی ہم سمجھنے کو تیار ہیں۔یہ سب کرتے ہوئے ہمیں یہ گمان نہیں ہوتا کہ ہماری ان فضول خرچیوں کا نقصان کسے ہوگا۔ یقینا imported اشیاء کے استعمال سے ان کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، کیوں کہ ان کی ادائیگیوں کے لئے ڈالرز ادا کرنے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملکی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتی جارہی ہیں۔ یوں یہ اشیاء ہمارے لئے اور مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں۔ کیا ہم اس طرح مہنگائی کے خود ذمہ دار نہیں ہیں۔ 

اسی طرح "گلیسرین" ہر دور میں جلد کی بہترین حفاظت کرتی ہے۔ جو کے ملک میں بیس پچیس روپے میں دستیاب ہے۔ لیکن ہمیں اطمینان اسی وقت ہوتا ہے جب ہماری ڈریسنگ ٹیبل پر لائن سے مختلف ایمپورٹڈ کریمیں رکھی ہوتی ہیں۔ لہذا مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ ہماری سوچ اور طرز زندگی کا ہے۔ اگر ہم دوسروں کو متاثر کرنے کے بجائے اپنی ضروریات کے مطابق اخراجات کریں تو بہت ساری بچت کرسکتے ہیں۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر تجارتی خسارہ میں خاطرخواہ کمی لائی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کے لئے سوچ اور طرز عمل کو بدلنا ہوگا۔ کیا ہم سب تیار ہیں اس کے لئے۔ سوچیے گا۔

[email protected]


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔