بلاگ

خدا کا خوف کریں!

آج اگر بھارت ہم پر حملہ کر دے اور بارڈر پر دونوں ملکوں کی فوجیں لڑ رہی ہوں تو اتنی نفرت اور پولرائزیشن کے ماحول میں بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم سب اپنے سارے اختلافات ایک طرف کرکے وطنِ عزیز کے دفاع کی خاطر اکٹھے کھڑے ہو جائیں گے۔ کیونکہ جب ملک کو اتنا بڑا چیلنج درپیش ہوگا، جس میں ملکی بقا کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو ہم میں سے ہر کوئی ہر ممکن قربانی دینے کیلئے تیار ہو جائے گا۔

 ایسی صورت میں نہ تو کوئی سیاست ہوگی اور نہ ہی کوئی بیان بازی۔ نہ ہی کوئی سپریم کورٹ کے فیصلوں کو متنازعہ کہے گا اور نہ ہی نفرت کا مظاہرہ کرے گا۔ سب ایک ساتھ مل کر ڈٹ جائیں گے۔خدا کا شکر ہے کہ آج بھارت یا کوئی اور دشمن ملک ہم پر حملہ آور نہیں ہے لیکن ہمارے ملک پر اس وقت جو حملہ ہو رہا ہے وہ کسی بھارتی حملے سے کم نہیں بلکہ اگر اس حملے کی سنگینی اور اپنی بقا کی بات کی جائے تو یہ اپنی نوعیت کا سب سے خطرناک حملہ ہے۔ لیکن نہ تو ہماری سیاست ختم ہونے کا نام لے رہی ہے اور نہ ہی ہماری بیان بازیاں۔ کبھی کبھار اس حملے کے بارے میں سرسری سی بات تو کر لی جاتی ہے لیکن ہم پھر سے سیاست میں پھنس جاتے ہیں۔

 آپ شاید سمجھ گئے ہوں گے کہ میں ملکی معیشت پر ہونے والے حملوں کی بات کر رہا ہوں اور یہ حملہ آور ہم خود ہیں۔ جب کوئی دشمن ملک پاکستان پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہم سب سمجھتے ہیں کہ وہ ملک قصور وار ہے اور ہم سب اس کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔ لیکن معیشت کی تباہ حالی میں ہم ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانا شروع ہو جاتے ہیں ۔حالانکہ اس ضمن میں ہم کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ مجھے یہاں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ملکی معیشت کی تباہ حالی میں کہیں نہ کہیں ہم سب ذمہ دار ہیں۔

 (ن) لیگ ڈالر کو مصنوعی طور پر نیچے رکھنے کی وجہ سے اس تباہ حالی کی ذمہ دار ہے۔ عمران خان آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے جانے اور پٹرول سبسڈی دینے کی وجہ سے ذمہ دار ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت گزشتہ حکومت کی پٹرول سبسڈی جلد نہ ہٹانے کی وجہ سے ذمہ دار ہے۔ ہماری معیشت کے کچھ بنیادی مسائل ہیں جنہیں تب تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک ہم سب ایک پیج پر نہیں آ جاتے۔ یہاں سب سے مراد تمام اکائیاں ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے قابلِ تعریف بات کی تھی کہ ہمیں میثاق معیشت کی طرف جانا چاہیے۔

ہمیں اس ضمن میں ہر ممکن محنت بھی کرنی چاہیے۔ معیشت کے بنیادی مسائل میں سے کچھ یہ ہیں کہ ہم اپنی آمدن سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ آمدن سے زائد خرچ کرنا کوئی معیوب چیز نہیں ہے ،جن ممالک میں آمدن سے زیادہ خرچ کرنے کا چلن موجود ہے وہ یہ اخراجات اپنی معیشت کو ایک پیداواری معیشت بنانے یا برآمدات میں اضافے کیلئے استعمال کرتے ہیںلیکن ہم تو اپنے سرکاری اخراجات بھی قرضوں سے پورے کرتے ہیں۔ اِسے سب اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کنٹرول کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں ہماری حکومت اور ریاستی اداروں، سبھی کو اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے۔

سب کو بڑی گاڑیوں کے لمبے لمبے قافلے اور زمینوں اور پلاٹوں کی الاٹمنٹس کو ترک کرنا ہوگا۔ ہمارے جیسے غریب ملک کو یہ شاہ خرچیاں زیب نہیں دیتیں۔ ہماری معیشت کی تباہ حالی کی دوسری بڑی وجہ ہمارے ہاں اس سوچ کا فقدان ہے کہ ہم نے کبھی یہ سوچنا ہی گوارا نہیں کیا کہ عالمی معیشت میں ہمارا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کی بھی گئی ہے تو ہم تاحال اُس پر عملدرآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ سنگاپور، چین اور دبئی جیسے جن ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنی یہ سمت بہت پہلے ہی متعین کرلی تھی۔ ہم نے ابھی تک بس اپنا جیو سٹریٹجک کرایہ ہی وصول کیا ہے، خود کو دنیا کے لیے ناگزیر ثابت کرکے۔

لیکن اب یہ من و سلویٰ بھی ختم ہو چکا ہے۔ صرف اسی چیز پر ملکی معیشت کا انحصارہونا غلط ہے۔ہماری معیشت کی بدحالی کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک پیداواری ملک نہیں بن پائے ۔ اس میں ہماری اشرافیہ زیادہ قصوروار ہے۔ یہاں کاروبار کرنا آسان ہے نہ ہی انصاف کا حصول۔ اگر کسی کاروباری شخص کے پاس کوئی تگڑی سفارش نہ ہو تو ٹیکس جمع کرنے کے ذمہ داران، لائسنس کا اجرا کرنے والے اور کنٹریکٹ دینے والے اس شخص کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں چند ایک افراد ہی یہاں کاروبار کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں رئیل اسٹیٹ میں زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے ریٹس یہاں زیادہ ہو چکے ہیں کہ جتنے کا اسلام آباد میں آج ایک گھر ملتا ہے اتنے میں نیو یارک میں ایک اپارٹمنٹ آجاتا ہےلیکن اس کے باوجود رئیل اسٹیٹ ایک ایسی صنعت ہے جسے برآمدی نہیں بنایا جا سکتا۔

اس لیے سٹہ باز لوگ پلاٹوں کی خرید و فروخت میں پیسہ لگاتے اور بناتے ہیں۔ اس کمائی سے بڑی بڑی گاڑیاں اور مہنگے لباس درآمد کر لیتے ہیں جس سے ہمارے درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو چمکانے کیلئے ہم اپنی زرخیز زمینوں اور آموں کے باغات کو بھی پلاٹ بنا بنا کر بیچ رہے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود آج ہم گندم اور کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ درآمدات کی غلط سمجھ اور ان میں آئے روز ہونے والے اضافے نے ہمیں اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے۔ درآمدات میں اضافے کی وجہ سے ہمارا جی ڈی پی بڑھتا ہے تو ہم واہ واہ کر اٹھتے ہیں کہ دیکھیں جی ڈی پی میں کتنی گروتھ ہوئی ہے لیکن درآمدات بڑھنے سے ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے، روپے کی قدر کم ہوتی ہے اور معاشی بحران بھی پیدا ہوتا ہے۔

 ہم ترقی کو دیکھتے ہی غلط پیرائے میں ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کسی عالمی شہرت یافتہ برانڈ کی دکان اگر پاکستان میں کھل جائے یا نئے ماڈل کی گاڑیاں یہاں زیادہ تعداد میں درآمد ہونے لگیں تو ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے جبکہ یہ کہیں سے بھی ترقی کی نشانی نہیں ہے۔ پھر ہم اپنے اوورسیز کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر پر بھی پھولے نہیں سماتے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری ترسیلاتِ زر اور درآمدات کی شرح بہت خراب ہے۔ ان پر انحصار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان میں اضافے کا مطلب ترقی ہے۔ ترسیلاتِ زر زیادہ ہونے کا مطلب ہے کہ ہم اپنے ٹیلنٹ کو ملک میں اچھے مواقع فراہم نہیں کر پائے۔

 ترسیلاتِ زر کا ایک معقول حصہ بھی یا تو درآمدات پر خرچ ہو جاتا ہے یا رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری پر لگا دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو ایک پیداواری معیشت بنانے کی طرف لے کر جانا ہے۔ آئی ٹی کی صنعت کے حوالے سے ہمارے بہت سے نوجوانوں نے دکھایا ہے کہ وہ اس شعبے میں زبردست کام کر سکتے ہیں اور گھر بیٹھے ڈھیروں ڈالرز پاکستان لا سکتے ہیں۔ آئی ٹی کی تعلیم کے اخراجات کم کرنے کیساتھ اس کی مفت فراہمی بھی یقینی بنانی چاہیے تاکہ غریب گھرانوں کے بچے بھی اس شعبے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی کھیل کے کھلاڑی خدا کا خوف کریں۔

 پاکستان اب ماضی میں کھیلے گئے کھیلوں کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے پٹرول سبسڈی سے بھی ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا تھا اور نفرت اور جھوٹ سے بھی پہنچا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو رجیم چینج کی جھوٹی کہانیاں سنا کر امریکہ کے خلاف اکسانے کے بجائے انہیں امریکی مارکیٹ میں کلائنٹس ڈھونڈنے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا اور بنگلہ دیش ہمارے بعد، لیکن معاشی لحاظ سے وہ ہم سے آگے ہیں۔ پاکستان کا پاسپورٹ صرف عراق، شام اور افغانستان سے بہتر رہ گیا ہے ، حتیٰ کہ بیشتر افریقی ممالک جن میں ایتھوپیا، روانڈا، کینیا، گھانا اور نائیجیریا شامل ہیں، ان کا پاسپورٹ بھی عالمی رینکنگ میں پاکستان سے بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستانی روپیہ اس خطے کی کیا اس سال کی سب سے بےقدر کرنسی بن چکا ہے۔ خدا کا خوف کریں! خدا کا خوف!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔