اداروں پر تنقید کی روایت ختم کریں

پاکستان اس وقت معاشی طورپر انتہائی نازک صورتِ حال سےدو چار ہے۔بدقسمتی سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کی نزاکت کا کسی کو احساس ہی نہیں، سیاسی جماعتیں اس جانب توجہ دینے کی بجائے آپس میں دست وگریباں ہیں،سیاسی کشمکش اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اپوزیشن اور حکمران جماعت کے درمیان صرف مار پیٹ ہونا باقی رہ گیاہے۔ 

زبان کا جو غیر مناسب استعمال کیا جارہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایسے الفاظ ماضی کے کسی سیاست دان نے کبھی استعمال نہ کیے ہوں گے۔عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنی تقاریر میں جو انداز اختیار کیا، اقتدار سے محرومی کے بعد وہ اس سے بھی کہیں زیادہ تلخ ہوگیا ، انہوں نے جس طرح اداروں، خاص کر فوج اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس سے ہر محبِ وطن شہری کو مایوسی ہوئی،ان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد لاؤ، میَں شکر ادا کروں گا، پھر خط لے آئے، سازش، دھمکی کا نعرہ لگایا اوراس کے بعد اداروں پر تنقید شروع کر دی ، اور حال ہی میں اب ان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اس سے ان کی سیاسی ساکھ پوری طرح بے نقاب ہو گئی ہے۔

ایک افسوس ناک واقعہ افواجِ پاکستان کے ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے کی صورت میں سامنے آیا جس میں ہونے والے جانی نقصان پر پوری قوم افسردہ ہے،پاکستان ایٹمی ریاست ہے جس کے اہم ترین ستون پارلیمنٹ (مقننہ)، انتظامیہ، عدلیہ، پاک فوج اور میڈیا ہیں،جن میں سے اگر ایک ستون بھی کمزور ہو ا تو ریاست مفلوج ہو کر رہ جائے گی ۔

عدلیہ اور پاک فوج کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر ان کو آئینی تحفظ دیا گیا، آئین کے مطابق ریاست کا کوئی شہری عدلیہ اور پاک فوج کی تضحیک نہیں کر سکتا۔مگر آج کل پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن، جس طرح سوشل میڈیا پرملک کے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اس سے سب سے زیادہ خوش بھارت کے حکمران، اور میڈیا ہیں جن کا بر ملا یہ کہنا ہے کہ جو کام ہم75سال میں نہ کرسکے وہ عمران خان اور ان کی جماعت نے چند ماہ میں کردیا، اداروں اور عوام کے درمیان نفرت کی جو لکیر کھینچی جارہی ہے وہ عالمی سازش کا حصہ ہے۔پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد حکمران اتحادی جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ کسی کو معاشی تباہی کی پروا ہی نہیں، پچھلے چند ماہ میں پار لیمان کے معاملات کا بار بار عدالت میں جانا جمہوری نظام کیلئے خطرے کی علامت ہے۔

 سیاست دانوں کو اپنے معاملات کو ایوان میں ہی حل کرنا چاہئے جس سے جمہوری نظام میں مضبوطی پیدا ہوگی، حیرت اس بات پر ہے کہ اس وقت ملک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے، عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، بے روز گاری اپنے عروج پر ہے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کی جنگ میں مصروف ہیں، انہیں عوام کی کوئی فکر نہیں، سابق وزیر اعظم عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد مسلسل اداروں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے ۔تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے مفاد میں مذاکرات کی جانب جانا ہوگا تاکہ ملک میں سیاست کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتِ حال کا خاتمہ ہوسکے۔ 

پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے دونوں مرتبہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آئے،اس سے قبل سینیٹ کے انتخاب میں بھی ہارس ٹریڈنگ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے ماضی میں ایسے الزامات لگتے رہے ہیں، اس لئے اب یہ لازمی ہوگیا ہے کہ جمہوری اداروں کی مضبوطی کیلئے پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کو ہمیشہ کے لئے دفن کیا جائے، الیکشن کمیشن اورسپریم کورٹ کو بھی جمہوری عمل کو بر باد کرنے کے اس طریقۂ کار کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہوگا تاکہ ملک میں جمہوریت کو فائدہ پہنچ سکے۔

 اس وقت جب کہ تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں، سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر جمہوریت کو تباہ کرنے اور اس میں کرپشن لانے کی ہر کوشش کو ناکام بناکر عوام پر اپنے اعتماد میں بہتری لائیں، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں،سیاست دانوں کی نااہلی کی ذمہ داری فوجی قیادت پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ پاک فوج نے سیاست میں عدم مداخلت اور ریاست کے آئینی اداروں کی پاسداری کی جو شاندار روایت قائم کی ہے وہ جاری رہنی چاہئے، ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن کو ڈائیلاگ کی جانب بڑھنا ہوگا۔ 

پاک فوج ریاست کی سلامتی، آزادی اور شہریوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا واحد ضامن دفاعی ادارہ ہے۔جو شخص مادرِ وطن سے محبت کرتا ہے وہ فوج پر شدید نوعیت کی تنقید کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس سے پاک فوج کمزور ہو اس کے اندر بددلی اور بد اعتمادی پیدا ہونے کا امکان ہو، پاکستان اس وقت اندرونی طور پر کسی بھی طرح کی باہمی چپقلش کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لئے تمام اداروں کو ایک پیج پر آکر ملک کو ہر قسم کے بحران سے نکالنے کے لئے حکمتِ عملی بنانا ہوگی اسی میں ہماری آزادی اور ترقی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔