ممنوعہ فنڈنگ اور فواد چوہدری کی گفتگو

ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے چار ویڈیوز پر مشتمل فواد چوہدری کی پریس کانفرنس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اسے سناتو مجھے بھی اس موضوع پر کچھ لکھنے کی تحریک ہوئی۔

بے شک ممنوعہ فنڈنگ کی تفصیل بڑی عجیب ہے۔ میرا بیٹا برمنگھم میں رہتا ہے کہ اس کی ایک کمپنی ہے ۔ اس کا ایک برٹش پارٹنر بھی ہے وہ جب بھی کسی کو فنڈنگ بھیجتا ہے تو اپنی کمپنی کے اکائونٹ سے بھیجتا ہے کیونکہ کمپنی کی طرف سے کی گئی فنڈنگ یورپ اور امریکہ میں ٹیکس کے معاملات میں بہتری کا سبب بنتی ہے۔

یقیناً جو 351غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے پی ٹی آئی کو فنڈنگ ملی ہے اس میں میرے بیٹے کی کمپنی بھی شامل ہو گی۔ لگتا ہے 34غیر ملکی شہریوں کی فہرست بھی امریکن خاتون رومیتاشیٹی جیسے افراد پر مشتمل ہوگی جس کے پاکستانی شوہر ناصر حسین نے اپنےجس اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی کوفنڈنگ بھیجی چونکہ یہ میاں بیوی کا جوائنٹ اکاؤنٹ تھا، اس لئے لسٹ میں رومیتاشیٹی کا نام بھی شامل کرلیا گیا کہ آدھی رقم اس خاتون نے بھیجی ہے اور چونکہ اس خاتون کے دادا پردادا کا تعلق ہندوستان سے تھا، اس لئے وہ خاتون بھارتی ہے۔

بینش فریدی نے باقاعدہ اپنا ویڈیو بیان جاری کیا کہ مجھ پاکستانی کو غیر ملکی قرار دینے والو خدا کے قہر سے ڈرو۔ ڈاکٹر مظہر رشی اور سمعیہ رشی دو پاکستانی میاں بیوی تھے، دونوں کا انتقال ہو چکا ہے مگر الیکشن کمیشن نے ان دونوں کو بھی غیر ملکی قرار دیا ہے ۔

میرے خیال میں الیکشن کمیشن نے ان کے نام کے ساتھ لفظ ’’ رشی ‘‘ کو دیکھ کر انہیں غیر ملکی قرار دیا ہے ۔ رشی ہندی زبان کا لفظ ہے جو خداپرست سادھوؤں کےلئے استعمال ہوتا ہے مگر ایک رشی خاندان بھی ہے ،جس سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی اپنے نام کے ساتھ رشی لکھتے ہیں جیسے بے شمار مسلمان اپنے نام کےساتھ راجپوت لکھتے ہیں۔

فواد چوہدری نے اور بہت سے لوگوں اور کمپنیوں کے متعلق بھی بتایا ہے کہ جو پاکستانی ہیں مگر فیصلے میں انہیں غیر ملکی ڈکلیئر کیا گیا ہے۔انہوں نے یہ حیرت انگیز بات بھی بتائی ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ آتے ہی بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں نےپی ٹی آئی کی فنڈنگ کو فوری طورپر ڈبل کردیاکہ اچھا تمہیں تکلیف ہے کہ ہم پی ٹی آئی کو فنڈنگ کیوں دیتے ہیں تو یہ لوپہلے جتنے ڈالر بھیجتے تھے اب ان سے ڈبل بھیج رہے ہیں ۔

فواد چوہدری نے فیصلے کے بارے میں ایک اور عجیب بات بتائی ہےکہ الیکشن کمیشن کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ یہ ریفرنس حکومت کو بھیجے اور فیصلے میں بھی ایسا کچھ نہیں لکھا گیا تھا وزیر قانون کی مبینہ خواہش پر الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا اورحکومت کو ریفرنس بھیجنے والاجملہ فیصلے میں شامل کر کےاسے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیاگیا۔

ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے میں اتنی خامیاں ہیں کہ عوامی نقطہ ِنظر سے وہ بھی عمران خان کے حق میں چلا گیا ہے،اس کے بارے میں کئی لوگوں سے میری گفتگو ہوئی زیادہ لوگوں کاخیا ل تھا کہ پی ٹی آئی نے تو اپناسب کچھ سامنے رکھ دیا ہے۔ اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی باری ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ انہیں فنڈنگ کہاں کہاں سے آتی ہے۔خاص طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی۔

اطلاعات یہی ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں اپنے اکاؤنٹس کسی اور کو دکھا ہی نہیں سکتیں۔ سنا ہے ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں جنہیں ڈائریکٹ فنڈنگ غیر ملکی حکومتوں نے کی ہوئی ہے۔کرنل قذافی اور صدام حسین کی طرف سے کئی جماعتوں کو فنڈنگ ملی تھی۔ فنڈنگ دینے والے خلیجیوں کی تو ایک لمبی فہرست ہے۔ اس میں اسامہ بن لادن کا نام بھی شامل ہے مگر جن لوگوں کو حلف نامہ اور سرٹیفکیٹ کا فرق معلوم نہیں، انہیں ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے یعنی فنڈنگ کا کھیل اخلاقی طور پر پی ٹی آئی جیت چکی ہے۔

فواد چوہدری نے بتایا کہ یہ جو کہا گیا کہ سولہ اکاؤنٹ چھپائے گئے۔ یہ بھی بالکل غلط بات ہے۔ ہم نے تمام اکاؤنٹس کی تفصیل جمع کرائی ہے مگر کچھ ذیلی اکاؤنٹ کھولے گئے تھے جن کا مقصد دوہزار تیرہ کے انتخابات میں مختلف شہروں میں جو اخراجات کئے جاتے تھے ان کے لئے رقوم مین اکا=نٹ سے ٹرانسفر کی گئی تھیں۔ سوان اکاؤنٹس میں موجود رقم دوبارہ شمار نہیں کی جاسکتی تھی۔

عارف نقوی کے حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی ٹائم مشین ہوتی تواسےمعلوم ہوجاتا کہ پانچ چھ سال بعد یورپ میں پاکستان کی معروف شخصیت عارف نقوی پر کوئی مقدمہ درج ہونا ہے تو ہم 2011 میں اس سے فنڈنگ نہ لیتے  اور جہاں تک عارف نقوی کے کیس کا تعلق ہے تو اب تک بیرون ملک اس پر کوئی چارج فریم نہیں ہوا صرف الزامات ہیں مگر الیکشن کمیشن کے فیصلے نے اسے مجرم قرار دے دیا ہے یقیناً وہ بھی اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گا۔

اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور وکیل، جس کا تعلق کسی اور سیاسی جماعت سے ہے، نے اپنانام خفیہ رکھنے کے وعدہ پربتایا ہےکہ ’’سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کئےہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

 مگر اپنے فیصلے میں ممنوعہ ذرائع سے فنڈ اکٹھا کرنے کا الزام الیکشن کمیشن پی ٹی آئی پر کہیں بھی ثابت نہیں کر سکا۔ جرم ممنوعہ فنڈنگ اکٹھی کرنا ہے۔ پی ٹی آئی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یہ تمام رقم پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں لوگوں نے یا کمپنیوں نے خودبھیجی ہے۔ ان سے خود جاکر پی ٹی آئی نے مانگی نہیں۔ قانون میں یہ کہیں نہیں ہے کہ جو رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئے۔ پارٹی اسے پہلے چیک کرے کہ بھیجنے والا کون ہے ۔رقم جس کمپنی سے آئی ہے اس کا مالک پاکستانی ہے یا نہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی پر یہ الزام ثابت نہیں ہوتا کہ خوداس نے ممنوعہ فنڈنگ اکٹھی کی ہے۔ فیصلے میں کہیں یہ موجود نہیںکہ پی ٹی آئی نے فلاں ممنوعہ فنڈنگ والے سے خود جا کر رابطہ کیا ہے اور ان سے ممنوعہ فنڈنگ لی‘‘۔

(11اگست سے14اگست مجلس ترقی ادب پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر دو کلب روڈ پر قومی سطح پرایک’’پاکستان بک فیئر ‘‘لگا رہی ہے۔ کتاب دوست احباب سے شرکت کی درخواست ہے)۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔