قومی شناخت اور ہمارا رویہ

آزادی کے 75سال مکمل ہونے پر جہاں دیگر تقریبات کا اہتمام کیا گیا وہاں لاہور کے ہاکی اسٹیڈیم میں جشن برپا کیا گیا۔اس پر بعض قنوطیت پسند وں نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا کہ ایک سیاسی جلسہ منعقدا کرنے کے لئےکروڑوں روپے کی آسڑوٹرف اُکھاڑ دی گئی۔

اب انہیں کون سمجھائے کہ آسڑوٹرف تو پھر لگ جائے گی، نہ بھی لگی تو آسمان نہیں گرپڑے گا۔ویسے بھی ہاکی کے زوال کا یہ عالم ہے کہ جو ٹیم کبھی عالمی چیمپئن ہوا کرتی تھی ،آج ورلڈ کپ کیلئےکوالیفائی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ موجودہ کارکردگی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ٹیم ہے جس نے تین اولمپک میڈل ،چار عالمی کپ اور تین چیمپئنز ٹرافیاں جیتنے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔پاکستان کے ہاکی ماہرین نے ایشیائی ٹیموں کو ہاکی کھیلنا سکھائی مگر اب انہی ٹیموں سے میچ جیتنا خواب بن گیا ہے۔

دیگر وجوہات اپنی جگہ مگر انحطاط کی سب سے بڑی وجہ اس آسڑوٹرف کی عدم دستیابی ہے جسے ایک جلسے کیلئے نہایت بے رحمی سے اُکھاڑ دیا گیا۔ویسے ہمارا یہ حسنِ سلوک محض قومی کھیل ہا کی تک محدود نہیں ،ہر قومی استعارے اور علامت کا یہی حال ہے۔ سینگوں والا پہاڑی بکرا مارخور،جس کا نام فارسی سے مستعار لیا گیا ہے اور اس کے معانی ہیں ـ’’سانپ کھانے والا‘‘۔

قیام پاکستان سے پہلے مارخور گلگت اور چترال سمیت شمالی علاقہ جات ،بلوچستان کے بعض علاقوں اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے فورٹ منرو میں بکثرت پائے جاتے تھے۔مگر جب سے پاکستان نے مارخور کو قومی جانور قرار دیا ہے، اس کا وجود خطرے میں ہے اور عالمی اداروں کے مطابق اب مارخور کا شمار ان جانوروں میں ہوتا ہے جن کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ اسکے باوجودمگرپاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں قومی جانور کے شکار کی اجازت ہے اور کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی شکاری محکمۂ تحفظ جنگلی حیات کو فیس ادا کر کے مارخور کے شکار کا اجازت نامہ حاصل کر سکتا ہے۔خداجانے کسی آسیب کا سایہ ہے یا کچھ اور ،ہمارے ہاں جس شے پر ہاتھ رکھا جاتا ہے ،اس کے برے دن شروع ہو جاتے ہیں۔دیودارانتہائی پائیدار درخت ہے جس کی لکڑی بہت مضبوط اور عمدہ ہوتی ہے۔یہ درخت محض اپنے قد و قامت کے لحاظ سے ہی منفرد و ممتاز نہیں بلکہ عمر کے اعتبار سے بھی بینظیر ہے۔دیودار کے درخت اوسطاً ایک ہزار سال تک زندہ رہتے ہیں۔مگر ان کی بدقسمتی کا فسانہ بھی مارخور سے ملتا جلتا ہے۔قومی درخت قرار دیے جانے کے بعد دیودار بتدریج ناپید ہوتا چلاجا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت دیودار کے دس لاکھ درخت تھے مگر اب ان میں سے صرف ایک لاکھ ہی باقی رہ گئے ہیں،ان کے زندہ رہ جانے کی وجہ بھی شاید ان کی درازیٔ عمر ہے۔

اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا اور آج اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ آنے کے باوجود اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج نہیں کیا جا سکا اور ہوتا بھی کیسے ،یہ عدالتی فیصلہ بھی انگریزی میں تحریر کیا گیا۔ہمارے ہاں اردو بولنے والے شرماتے ہیں اور انگریزی بولنے والے اِتراتے ہیں۔کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم احساس کمتری کا شکار ہیں ۔کپڑے کی دکان پر جاتے ہیں تو کہتے ہیں پاکستانی نہیں جاپانی کپڑا دکھاؤ۔الیکٹرانکس کی مارکیٹ میں چلے جائیں تو فرمائش کرتے ہیں ،امپورٹڈ آئٹمز دکھاؤ۔ہمارا قومی پھول چنبیلی ہے جسے جاسمین بھی کہتے ہیںمگر ہم سب کو گلاب پسند ہے ۔

میں گلی محلے کی بات نہیں کرتا ،آپ کسی یونیورسٹی چلے جائیں اور طلبہ و طالبات سے پانچ سوالات پوچھیں ،پاکستان کا قومی جانور کون سا ہے؟پاکستان کا قومی پرندہ کون سا ہے؟پاکستان کا قومی درخت کون سا ہے ؟پاکستان کا قومی پھل کون سا ہے ؟اور پاکستان کا قومی مشروب کون سا ہے؟یہ پڑھے لکھے نوجوان اگران پانچ سوالات میں سے دو کے بھی درست جواب دے سکیں تو سمجھ لیں میرا مفروضہ غلط ہے اور پاکستانیت زندہ ہے ۔چکور پاکستان کا قومی پرندہ ہے مگر بیشتر پاکستانیوں نے اسے زندگی بھر نہیں دیکھا ہو گا۔ہاں البتہ چکور واحد قومی علامت ہے جو ہمارے مزاج سے بھائو کھاتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ چکور ایسا پرندہ ہے جو چاند سے بہت پیار کرنا چاہتا ہے ،اسے چاند کو چھونے کی آرزو بیتاب کرتی ہے ،یہ اونچی اڑان بھرنا چاہتا ہے مگر جذباتیت کے باعث اکثر ناکام رہتا ہے اور اڑتے اڑتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔چاہنے والے اپنے محبوب پر جاں نثار کرتے ہیں ،قربان ہو جاتے ہیں مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم جس سے پیار کرتے ہیں ،اسی پر وار کرتے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ عراق دوسرا ملک ہے جس نے چکور کو قومی پرندہ قرار دیا ہے۔گنے کا رس ہمارا قومی مشروب ہے مگر ہم آج تک اسے معیاری پیکنگ میں بطور برانڈ رجسٹر نہیں کروا سکے، اس کے بجائے ہمارے ہاں نیلے ،پیلے ،ہرے اور کالے مشروبات سے رغبت پائی جاتی ہے جو مہنگے بھی ہیں اور مضر صحت بھی۔آم ہمارا قومی پھل ہے ،پاکستان میں آم کی سب سے زیادہ انواع و اقسام پائی جاتی ہیں،پاکستانی آم دنیا بھر میں اپنی لذت اور ذائقے کے باعث مقبول ہیں ۔ 

حکومت اگرچاہتی تو آموں کی برآمد سے کثیر زرِمبادلہ کمایا جا سکتا تھا مگر دیگر قومی استعاروں ،علامات اور نشانات کی طرح آم کی بے قدری و بے توقیری میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔جو قوم اور جو ملک اپنے قومی نشانات ،علامات اور استعاروں کی قدر نہ کر سکے ،اس کی قدر و منزلت میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟

آپ قومی اداروں کو دیکھ لیں ،پی آئی اے سے ریلوے اور پی ٹی وی سے اسٹیل ملز تک جتنے بھی اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کا لاحقہ جڑا ہے ان سب کا ستیاناس ہوا ہے۔لیکن جونہی یہ قومی ادارے پرائیویٹائز ہوتے ہیں،ان کی تقدیر بدل جاتی ہے اور یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتے ہیں۔منیر نیازیؔ نے سچ کہا تھا:

اسے زہریلی خوشبوئوں کے رنگین ہار دیتا ہوں

میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔