وطنی سیاسی تکون

ہمیشہ سے سیاسی عقیدہ ایک ہی، پاکستان کے اندر تین سیاسی حقیقتیں:حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ۔اسٹیبلشمنٹا کو سہولت گاہے گاہے ، پہلی دو قوتوں کو ٹھکانے لگا کر مملکت کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے اور پھر دونوں فریقوں میں سے اپنی مرضی کے بندے چُنے،ایک نئی سیاسی حقیقت تشکیل دے ڈالے،کئی دفعہ آزما چکے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایک سہولت اور بھی،اپنی منشا اور فائدے کے لئے حکومت یا اپوزیشن جس کو چاہے استعمال میں رکھے جس کو چاہے تل دے۔ جب کبھی کسی کو ترک کیا وہ کپڑے جھاڑ کر کھڑاضرور ہوا، ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ ۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ ہمیشہ سیاست مضبوط کرتا ہے،سیاستدانوں کو رفعتیں ملتی ہیں۔ وطنی سیاسی تاریخ، چشم کشااور ہوشربا، وزرائے اعظم کا شکار شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔

سابق گورنر شاہد حامد اپنی کتاب میںاپنے والد بریگیڈئیر حامد (گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری)کے حوالے سے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی برخاستگی کا دلچسپ واقعہ درج کرتے ہیں،’’ گورنر جنرل غلام محمد وزیر اعظم کو طلب کرتے ہیں،پہلو میں کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور سیکرٹری دفاع جنرل اسکندر مرزاموجود، خواجہ ناظم الدین سے استعفیٰ طلب کیا جاتا ہے‘‘۔’’خواجہ صاحب!آپ کی حکومت نا اہل اور کرپٹ ہے،چل نہیں پا رہی، آپ مستعفی ہوجائیں‘‘۔خواجہ صاحب ! ’’کیوں؟آپ کون ہوتے ہیں؟میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘۔گورنر جنرل ! ’’تو پھر میں آپ کو برخاست کرتا ہوں‘‘۔

بات کی تفصیل یہاں متعلقہ نہیں،خواجہ صاحب کو گھر ہی جانا پڑا۔اس سے پہلے لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ایک ناکام سازش ہوئی، جو 10مارچ 1951کو ناکام بنا ئی گئی تھی۔دورانِ ٹرائل معززجج نے سازش کے سرغنہ میجر جنرل اکبر خان سے پوچھا ، ’’ حکومت کا تختہ کیوں اُلٹنا چاہتے تھے؟‘‘ ہکا بکا کردینے والا جواب،’’لیاقت علی خان نااہل اور انڈیا کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں‘‘۔اللہ کا غضب ایسے تمام کرداروں پرجو لیاقت علی خان کے بارے میں ایسی سوچ رکھتے تھے۔خواجہ ناظم الدین کی برخاستگی کے بعدتو جیسے یہ سلسلہ چل نکلا۔محمد علی بوگرا ،چوہدری محمد علی ،حسین شہید سہروردی ،ابراہیم چندریگر ، ملک فیروز نون ،ذوالفقار علی بھٹو ،جونیجو ،بینظیر،نواز شریف ،بے نظیر ،نواز شریف، جمالی، یوسف رضا گیلانی ،نواز شریف ،عمران خان ،اکثریت کو لانے کا سہرا اورسب کو گھر بھیجنے کا کارنامہ، بھلا اس کریڈٹ سے اسٹیبلشمنٹ کو کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ بلی چوہے کا کھیل لمحہ بہ لمحہ ،ایک تسلسل کیساتھ ، آج تک جاری ہے۔اس سارے عمل اور کارروائی میں جب کوئی سیاسی پارٹی مضروب ہوتی ہے، مشتعل ہونا بنتا ہے۔جب بھی کسی سیاسی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا ،مقبولیت ملی۔

بدقسمتی اتنی، اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لینے کے باوجود سیاستدانوں نے اندرخانے دل جمعی اور خشوع وخضوع سے مخالفت کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دن دہاڑے جنگ تھی تورات اندھیرے معاملہ فہمی۔ ایسےطریق کارپر ہر سیاسی جماعت سختی سے کاربند رہی۔اس دو عملی نے اسٹیبلشمنٹ کوہر پریشانی سے محفوظ رکھا۔

اسٹیبلشمنٹ کا آخری معرکہ ’’ پروجیکٹ عمران خان ‘‘جب کامیابی سے ہمکنار ہوا تو چند ہفتوں تک اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں یہ تاثر ضرور رہاکہ معاملہ ہمیشہ کےلئے یعنی کم از کم اگلے پندرہ سا ل کے لئے حل ہوگیا ۔میرے حسبِ توقع و مطابق ، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے صفحہ میں چند ماہ اندر دراڑ پڑناشروع ہوگئی کہ یہ روزمرہ کا معمول ہی توتھا۔تاریخ کا سبق ،تاریخ نے اپنے آپ کو دہرانا تھا۔شومئی قسمت ،آج صفحے کے پرزے ہوا میںاُڑ رہے ہیں، وطنی سیاسی ماحول پراگندہ کر چکے ہیں۔

عمران خان سے پہلے بھٹو صاحب اور نواز شریف کو بھی یہ زعم تھا کہ ٹھاٹھیں مارتے عوام ان کے پیچھے، اسٹیبلشمنٹ کا دید لحاظ کرنا بنتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے اپنے اصول و ضوابط،چنانچہ زُعم میں جکڑے تین رہنماؤں سے ’’تجاوز‘‘ہوا،جوکہ ناقابلِ معافی جرم رہا۔دو کا انجام ہمارے سامنے،ایک دنیا فانی سے باہر،دوسرا سیاستِ فانی سے باہر۔

گیم پلان آج بھی وہی، عمران خان کو اُس کی اوقات میں رکھنے کا بندوبست نہ کیا جائے،یہ ممکن نہیںتھا۔عمران خان کی سیاست کا مستقبل مخدوش اورحتمی ،طے کر لیاگیا ہے،آثارنمودارہوچکے ہیں۔عمران خان کی ٹکراؤ اور تصادم کی سیاست اور بیانیہ مقبولیت کے لئےفٹ کیس ،سیاست اورالیکشن میں ایسے بیانیے کی گنجائش نہیں۔شومئی قسمت موجودہ حکومت کی شیلف لائن بھی مقررکر دی گئی تھی،پوری ہوچکی ہے۔ عمران خان کے ساتھ ان کی بھی برابر چھٹی منظور ہوچکی ہے۔چند اتحادی پارٹیاں ہمہ وقت اشارہ ابرو کی منتظر ،اِدھر اشارہ،اُدھرموجودہ حکومت نے آرام سے دھڑام گرنا ہے۔اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت بھی لڑ کر مرے گی۔اہم بات اتنی کہ اسٹیبلشمنٹ کا عزم اور ارادے اٹل، نگراں حکومت کا بندوبست ستمبر کے اختتام سے پہلے ہوجائے گا۔

عمران خان کو کریڈٹ کہ ہمیشہ اڑتے تیر کو بغل میں لیتا ہے، عمران خان کو سیاسی طور پر دفنانے کا عمل شروع ہوچکا تھا مگر سست روی سے ۔دو واقعات نے عمران خان کو جلد از جلدترنوالہ بنا دیا ہے۔سانحہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر کریش پر تحریک انصاف کی مجرمانہ ،سنگدلانہ مہم اور پھر عمران خان کا زعم میں جلسہ عام میں جج زیبا چوہدری صاحبہ کو دباؤ اور تضحیک کا نشانہ بنانا۔31اگست کو عدالت نے عمران خان کو طلب کر لیا ہے۔اگرچہ شہباز گل معاملات نے طول نہیںپکڑنا تھا۔ دو واقعات نے مہینوں کا کام ہفتوں میں کر ڈالا ہے۔عمران خان کی سیاست کی مستقلاً بیخ کنی ،اگلے چند ہفتوں میں عمران خان منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں۔تحریک انصاف کی افادیت سے انکار نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے اس کو قائم رکھنا ہے، چار چاند لگانے ہیں۔عمران خان کو اتنی سہولت میسر ضرور کہ اپنی مرضی کا جانشین مقرر کریں، جس کو مرضی وہ تحریکِ انصاف کی مسندِ صدارت پر بٹھائیں، اسٹیبلشمنٹ کو وارا کھائے گا۔عمران خان ،بے نظیر بھٹو ،بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز صاحبہ جیسی سہولت سے محروم کہ ان کیلئے جان کی بازی لگانے والا جانشین تحریک انصاف میں موجودنہیں۔جو بھی نیا چیئرمین ہوگا اسٹیبلشمنٹ کیلئے آسودگی ہی آسودگی رہنی ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کو کیش اسٹیبلشمنٹ نے ہی کرنا ہے، الیکشن میں دو تہائی اکثریت دلوا کر ملکی سیاست اور آئین پاکستان کو RESET کرنا ،اپنی مرضی کے مطابق کئی تاریخی حقیقتوں کوتبدیل کرنا پہلی ترجیح رہنی ہے۔اٹھارہویں ترمیم بھی وجہ نزاع ،پارلیمانی نظام بھی دردِ سر، کرنے کے ہیں کام بہت۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔