30 اگست ، 2022
پاکستان میں حالیہ سیلاب 2010ء کے سیلاب سے بھی بڑی ناگہانی آفت بن کر ٹوٹا ہے۔پاکستان دنیا میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان ماحول کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں جیسا کہ ماحولیاتی آلودگی کے پھیلائو اور درختوں کی کٹائی کے باعث موسمیاتی تبدیلی میں اگرچہ اپنا حصہ ڈالتا ہے جو بہت زیادہ تو نہیں لیکن اِس کے مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ایک ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں سیلابی ریلوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ وفاقی وزیر ماحولیاتی کے مطابق سرِدست 30ملین سے زیادہ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ مالی نقصان کے ازالے کے لئےسالہا سال درکار ہیں لیکن جانی نقصان کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں۔
جب سے میں نےہوش سنبھالا ہے، میں نے تین بڑی قدرتی آفات پاکستان پر ٹوٹتی دیکھی ہیں۔ ایک 2005ء میں کشمیر اور اُس سے ملحقہ علاقوں میں آنےوالا تباہ کن زلزلہ، دوسرا 2010کا سیلاب جس میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے مطابق 43ارب ڈالرکے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور تیسرا حالیہ سیلاب، جس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا لگایا جا رہا ہے لیکن حتمی اعدادوشمار سیلابی پانی اُترنے کے بعد ہی یکجا کئے جا سکیں گے۔
جب 2005کا زلزلہ آیا تھا تو زلزلہ متاثرین کے لئے جس انسانی جذبے کا مظاہرہ پوری قوم نے کیا تھا، وہ متاثر کن تھا۔ 2010 کے سیلاب کے دوران اگرچہ یہ خبریں شائع ہوتی رہیں کہ 2005کے زلزلہ متاثرین کے لئے بھیجی جانے والی امداد آگے پیچھے کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اندرون اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دل کھول کر سیلاب متاثرین کی مدد کی۔ لیکن حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود قوم سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے اُس طرح یکجا نظر نہیں آتی۔ شاید اب ہم میں وہ قومی و انسانی جذبہ باقی نہیں رہا جو پہلے موجود تھا۔
ایک صاحب جو خود کو پاکستان کا مقبول ترین لیڈر کہتے ہیں، ایک طرف سیاسی جلسے کرتے رہے اور دوسری طرف سیلاب زدگان کے لئے امداد جمع کرنے کے بجائے اپنی جماعت کے لئے فنڈ ریزنگ کرتے رہے۔ عمران خان یہ کہتے پائے گئے کہ جو لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ سیلاب زدگان کے لئے فنڈ ریزنگ کرو اور سیاست نہ کرو وہ خود ’’لفافے‘‘ ہیں اور یہ مہم بھی یہ لوگ ہی چلا رہے ہیں۔
حالانکہ عمران خان 2010 کے سیلاب متاثرین کے لئے جنگ میڈیا گروپ کے ساتھ مل کر ’’پکار‘‘ کے نام سے امدادی مہم چلا چکے ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ وہ امدادی کاموں کے لئے عوام سے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کر سکتے ہیں، تنقید کی زد میں آنے کے بعد اب سیلاب متاثرین کے لئےفنڈ ریزنگ کی طرف آئے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ وہ اِس پیسے کو سیلاب متاثرین کی بحالی اور امداد کےلئے خرچ کریں گے یا سیاسی مقاصد میں صرف کریں گے۔
دوسری طرف صوبہ خیبرپختونخوا میں عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے سیلاب کو وجہ بناتے ہوئے چند روز پہلے آئی ایم ایف کی سرپلس بجٹ کی شرط کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ اَمر حیران کن ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ نے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے بجائے سیلاب کو وجہ بناتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف کی شرائط سے دستبردار ہونے کے حوالے سے خط لکھا ہے۔ شوکت ترین کی وزیر خزانہ خیبر پختونخوا تیمور جھگڑااور وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری کے ساتھ جو آڈیو لیک ہوئی ہے، اُس سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا ہے کہ یہ اقدام ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس میں سیلاب زدگان کو بہانہ بنا کر پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام سے نکالا جا رہا ہے۔
آڈیو لیکس میں سنا جا سکتا ہے کہ محسن لغاری نے جب شوکت ترین سے پوچھا کہ ہمارے اس اقدام سے ریاستِ پاکستان کو تو کوئی نقصان نہیں ہوگا، جس کا شوکت ترین کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے لئے سیاست سیلاب زدگان اور ریاست دونوں سے زیادہ ضروری ہے۔قدرتی آفت کی حشر سامانیوں کے درمیان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کا یہ اقدام ملک میں معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اِس اقدام سے نہ صرف پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر ہو سکتا ہے بلکہ سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ بھی کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی ایسے ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں جن کا مقصد عوام کووفاقی حکومت کی سیلاب متاثرین کی مہم کا حصہ بننے سے روکنا ہے کیوں کہ برسرِاقتدار حکومت تحریکِ انصاف کی نہیں ہے۔ اِس ناگہانی آفت کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے کے باوجود تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سیل پوری شدومد کے ساتھ عوام میں تقسیم پیدا کرنے اور اُن میں حکومت کی امدادی مہم کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جب کہ اس وقت قوم کی یکجہتی اہم قومی ضرورت ہے۔
سیلاب متاثرین کی اگر بروقت امداد اور بحالی کے حوالے سے اقدامات نہ کئےگئے تو آنے والے دنوں میں یہ صورتحال سنگین انسانی المیے کی صورت اختیار کر سکتی ہے، اِس لئے پاکستان میں مقیم اور بالخصوص اوورسیز پاکستانیوں کو بڑھ چڑھ کر سیلاب متاثرین کی امداد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ریسکیو آپریشن کے بعد سیلاب متاثرین کی آباد کاری ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
پھر آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لئےتیار ہونا اُس سے بھی بڑا چیلنج ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں کئی بار یہ تذکرہ کر چکا ہوں کہ موسمیاتی تبدیلی کا تعلق صرف موسم یا ماحول ہی سے نہیں بلکہ انفراسٹرکچر سے بھی ہے۔ ہمیں ایسا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو اس قسم کی قدرتی آفات کی صورت میں زیادہ لچکدار ہو۔ جن علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے وہاں ہیضہ، ٹائیفائیڈ، ڈینگی ، ملیریا اور ہیپا ٹائٹس اے جیسے وبائی امراض بھی پھوٹ سکتے ہیں، جن سے نمٹنے کے لئےہنگامی بنیادوں پر پیشگی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سیلاب کی وجہ سے فصلوں کو بڑے پیمانے پر پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے آنے والےدنوں میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ابھی سے انتظامات کرنا ہوں گے ۔ یہ انتظامات درآمدات کی صورت میں ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسا اُسی صورت ممکن ہے اگر ہم آئی ایم ایف پروگرام میں شامل رہتے ہیں۔ اِن حالات کے پیش نظر کے پی حکومتی کا آئی ایم ایف کی سرپلس شرط سے دستبردار ہونے کا اعلان عوام دشمنی کے مترادف ہے۔ اِس وقت ملک سیلاب جیسی ناگہانی آفت کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ اِن حالات میں سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے بجائے سیاست کرنا افسوسناک ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔