01 ستمبر ، 2022
میرے ہم عمر افراد نے وہ حالات و واقعات نہیں دیکھے جن کے سبب پاکستان دولخت ہوگیا، محض تاریخ کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان کو توڑنے کی سازش میں کس نے کیا کردار اداکیا ؟اسی طرح ہم نے میر جعفر اور میر صادق کو بھی نہیں دیکھا ،مورخین بتاتے ہیں کہ کس طرح ان دونوں شخصیات نے ذاتی مفادات کے پیش نظر اپنی قوم سے غداری کی ۔تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان اپنی تقریروں میں مسلسل ان تاریخی کرداروں کا ذکر کرتے رہے ہیں ۔لیکن ہم نے ’’میر شوکت ترین‘‘کا شرمناک کردار ضرور ملاحظہ کیا ہے ۔
ہم ان کرداروں سے بخوبی واقف ہیں جنہوں نے حقیر نوعیت کے جماعتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سازش کی اور پاکستان کو معاشی طور پر دولخت کرنے اور توڑنے کا منصوبہ بنایا۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمورجھگڑا سے ہونے والی گفتگو جو لیک ہونے کے بعد سامنے آئی ،اس کے بعد کیا کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟
شوکت ترین نے اس آڈیو لیک اور اپنی گفتگو سے متعلق تو کوئی تردید یا وضاحت پیش نہیں کی البتہ یہ اعتراض کیا ہے کہ ان کی نجی گفتگو کیوں ریکارڈ کی گئی ۔حالانکہ ان کے قائد عمران خان جن کی پیروی کرتے ہوئے یہ گھٹیا ترین حرکت کی گئی،ان کا اپنا فرمانِ عالیشان ہے کہ خفیہ اداروں کی طرف سے ان کی نگرانی کرنے اور گفتگو ریکارڈ کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ وہ کوئی غلط کام نہیں کرتے۔اس آڈیو لیک میں محسن لغاری کی طرف سے جب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف کا پروگرام سبوتاژ ہونے کی صورت میں ریاست کو نقصان تو نہیں ہوگا ؟
شوکت ترین گالی دیتے ہوئے کہتے ہیں ،آپ کے چیئرمین کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس سے ریاست کو نقصان ہو رہا ہے۔شوکت ترین کے اس جواب پر مجھے فرانسیسی بادشاہ شاہ لوئی یاد آگئے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ حضور!آپ کی وجہ سے ریاست کو ابتلا و آزمائش کا سامنا ہے تو انہوں نے کہا،میں خود ریاست ہوں۔عمران خان کے عقیدت مندبھی غالباً اس سوچ پر ایمان لے آئے ہیں کہ ان کا دیوتا ہی ریاست ہے اس لئے وہ ملک کو سرخ لکیر قرار دینے کے بجائے مہاتما کو ریڈ لائن مانتے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ وہ اگرنہیں تو پھر آگ لگے اس ملک کو، سب کچھ تباہ و برباد ہوتا ہے تو ہو جائے۔
ملتان کے فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے شوکت ترین کو اس ملک نے کیا نہیں دیا۔ ان کے والد ڈاکٹر جمشید ترین کوئی عام معالج نہیں بلکہ فوجی ڈاکٹر تھے۔ شوکت ترین نے آرمی کنٹونمنٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد بینکاری کی طرف راغب ہوگئے۔سٹی بینک میں 22سال ملازمت کرنے کے بعد کیریئر کی بلندی تک جا پہنچے توتھائی لینڈ میں کنٹری منیجربنادیا گیا۔نوازشریف کے دوسرے دورِحکومت میں جب HBL اور UBLمکمل طور پر سرکاری بینک ہوا کرتے تھے تو انہیں خسارے کا سامنا رہتا۔
نوازشریف نے ان کی حالت سُدھارنے کے لئے قابل افراد کی تلاش شروع کی تو نظر انتخاب زبیر سومرو اور شوکت ترین پر آکر رُک گئی۔شوکت ترین کو HBL،زبیر سومرو کو UBLجب کہ نیشنل بینک کو محمد میاں سومرو کے حوالے کردیا گیا۔اس دوران مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔شوکت ترین نے 2000میں HBLکو خداحافظ کہا اور یونین بینک کے صدر بن گئے جسے بعدازاں ایک نجی بینک نے خرید لیا۔اس دوران شوکت ترین دو بارکراچی اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین منتخب ہوئے۔مارچ 2008میں شوکت ترین نے دیگر کاروباری دوستوں سے مل کر سعودی پاک کمرشل بینک خریدلیا۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انہوں نے شوکت ترین کو سندھ سے سینیٹر منتخب کروایا۔جب الیکشن کمیشن نے منتخب عوامی نمائندوں کے اثاثہ جات کی تفصیل جاری کی تو معلوم ہوا کہ شوکت ترین ایوان میں امیر ترین سینیٹر ہیں۔
شوکت ترین نے وزارتِ خزانہ سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے بات چیت کی اور 11.2بلین ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ وزارت خزانہ چلی یا نہیں،شوکت ترین کا کاروبار چل نکلا۔انہوں نے دوستوں سے مل کرجو سعودی پاک کمرشل بینک خریدا تھا اسے یکم جون2009کو ری برانڈ کرکے دوبارہ لانچ کردیا گیا۔ان کا یہ بینک خوب پھلا پھولا۔اگرچہ پہلے دن سے ہی Conflict of Interestکا معاملہ درپیش تھا،وہ بطور وزیر خزانہ اپنا بینک چلا رہے تھے لیکن انہوں نے 23 فروری 2010 ء کو بتایا کہ انہیں اپنے بینک کیلئے مارکیٹ سے Equity درکار ہے اور وہ یہ کام بطور وزیر خزانہ نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنا واضح طور پر Conflict Of Interestکے زمرے میں آتا ہے۔
11سال بعدشوکت ترین پی ٹی آئی کے دور میں ایک بار پھر وزیر خزانہ کے طور پر واپس آئے تو اپنے ملکیتی بینک کو بیچنے کی کوشش کی۔مگر ڈیل کامیاب نہیں ہوسکی۔
عمران خان پاکستان میں چین جیسا نظام لانے کے خواہاں تھے ۔ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے اگر شوکت ترین نے یہ حرکت چین،سعودی عرب، ایران یا پھر روس میں کی ہوتی تو ان کا کیا حشر ہوتا؟حضور! کالام میں دریا کنارے ہوٹل بنانے کی اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی ضرور کریں لیکن جو ریاست کو دیوار سے لگا کر معیشت کے پشتے توڑنا چاہتے تھے تاکہ دیوالیہ پن کا سیلاب سب کچھ بہا کرلے جائے ،ان کا بھی ٹرائل ہونا چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔