کورونا اور سیلاب، ایک موازنہ

کورونا (Covid 19) بہت بڑی آفت تھی۔ دنیا بھر میں اس سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔ چین سے لے کر امریکہ تک اس کی وجہ سے زندگی رُک گئی تھی۔ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک کی معیشت کو بھی اس نے جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ پاکستان کیلئے بھی کورونا بہت بڑی آفت ثابت ہوا۔ 

سرکاری اعدادوشمار کی رو سے پاکستان میں اس سے پندرہ لاکھ لوگ متاثر ہوئے جب کہ 30600پاکستانی لقمۂ اجل بنے۔ میرے ذاتی اندازے کے مطابق متاثرہونے والے افراد اور وفات پانے والے دونوں کا تخمینہ اس سے دو گنا ہے کیوں کہ اکثر لوگوں کے ٹیسٹ نہیں ہوئے ۔ بہت سارے لوگوں کی موت کی اصل وجہ کورونا تھا لیکن ٹیسٹ اور علاج نہ ہونے کےباعث اس کی وجہ کچھ اور سمجھی گئی۔

 اس کے برعکس سرکاری اعدادوشمار کے مطابق حالیہ سیلاب کے نتیجے میں ابھی تک پندرہ سو کے قریب اموات واقع ہوئیں لیکن معاشی حوالوں سے دیکھا جائے تو کورونا کی نسبت سیلاب پاکستانی معیشت کیلئے سینکڑوں گنا زیادہ تباہ کن ثابت ہوا بلکہ کورونا کی وجہ سےجہاں ترقی یافتہ ممالک کی معیشت تباہ ہوئی، وہاں پاکستان کو الٹا معاشی فائدہ ہوا۔ مثلاً کورونا کے دنوں میں پاکستان کے اندر تیل کی کھپت کم ہوئی۔ 

عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کے اس سال کے قرضے کی قسط مؤخر کردی۔ پاکستان سے ہر سال حج اور عمرے کیلئے لاکھوں لوگ جو اربوں روپے زرِمبادلہ کی صورت میں باہر لے جاتے تھے، اس کی مسلسل دو سال بچت ہوئی۔ یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک میں ہمارے جو امیر طبقات سیر و سیاحت کے لئے جاکر زرمبادلہ باہر لے جاتے، وہ سفری پابندیوں کی وجہ سے پاکستان میں ہی رہ گیا۔ 

امریکہ ،برطانیہ، یورپ اور عرب ممالک میں کام کرنے والے کئی پاکستانی وہاں سخت پابندیوں سے تنگ آکر پاکستان آئے اور اپنے ساتھ ڈالر، پائونڈز، درہم اور ریال بھی لائے۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت نے نہ تو مغربی اور عرب ممالک کی طرح سخت لاک ڈائون کئے اور نہ ویکسین وغیرہ پر پیسے خرچ کئے۔ ہمیں ویکسین چین اور امریکہ کی طرف سے خیرات میں ملی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو مالی حوالوں سے کورونا کی وجہ سے عمران خان نیازی کی حکومت کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا لیکن ان کے ترجمان اور معاشی بقراط یہ تاثر دیتے رہے کہ جیسے انہوں نے کمال کر کے کورونا کے دوران بھی معیشت کو سنبھالے رکھا۔ اسی طرح کورونا انسانی جانوں کیلئے خطرہ تھا لیکن اس نے پاکستان کے انفراسٹرکچر کو کوئی نقصان پہنچایا اور نہ فصلوں کو تباہ کیا۔

اس کے برعکس حالیہ سیلاب سے اگرچہ ابھی تک پندرہ سو کے قریب اموات ہوئی ہیں لیکن کروڑوں لوگوں کی جمع پونجی پانی میں بہہ گئی۔ کروڑوں لوگوں کا وسیلۂ روزگار چھِن گیا۔ لاتعداد لوگ بے گھر ہوئے۔ کھربوں کی فصلیں اور انفراسٹرکچر متاثر ہوا اور معاشی نقصان کا تخمینہ تیس سے چالیس ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ کورونا پوری دنیا اور پورے پاکستان کا اہم ترین مسئلہ بن گیا تھا لیکن المیہ یہ ہے کہ سیلاب کی آفت صرف ان لوگوں کا اہم ترین مسئلہ ہے جو اس سے براہِ راست متاثر ہیں۔

دنیا تو کیا پورا پاکستان بھی اس کو نمبرون مسئلہ نہیں سمجھ رہا۔ اسی طرح کورونا کا مسئلہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا ہوا تھا لیکن سیلاب کا مسئلہ پاکستانی میڈیا کیلئے بھی نمبرون ایشو نہیں بن سکا کیونکہ متاثرہ اضلاع ریٹنگ دینے والے بڑے شہر نہیں ہیں۔ کورونا کے مسئلے کی حدت چین سے امریکہ تک پوری دنیا میں یکساں محسوس کی جارہی تھی اس لئے ان دونوں ممالک سمیت عالمی اداروں نے بھی پاکستان کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ہماری مدد کی لیکن اب جبکہ ہم اپنی سیاست اور صحافت میںسیلاب کو نمبرون مسئلہ نہ بناسکے تو دنیا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہماری مدد کرے۔ 

دوسری طرف یہ آفت ایسی حالت میں آئی ہے جب ہماری معیشت پہلے ہی سونامی کی آفت سے تباہ ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سابق حکومت کی وعدہ خلافی کی تلافی اور نئی قسط کی شرائط پوری کرنے کیلئے شہباز شریف حکومت نے جس طرح بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھادیں اس کی وجہ سے غریب تو کیا مڈل کلاس کا جینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ سیلاب کی آفت ایسے عالم میں آئی ہے کہ سوائے یواے ای اور چین کے باقی تقریباً پوری دنیا کے ہر ملک کی معیشت اپنی اپنی جگہ دبائو کا شکار ہے۔

کووڈ کے بعد یوکرائن جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ یقیناً چین، یواے ای، سعودی عرب، ترکیہ، امریکہ اور اس طرح کے کئی دیگر ممالک نے بروقت کچھ نہ کچھ مدد کی ہے جب کہ یواے ای اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ممالک میں پاکستانی سیلاب متاثرین کیلئے مالی امداد کی مہمات چلا کر بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ بھی کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو مدد آئی ہے، وہ ضرورت کے مقابلے میں کم ہی نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ابھی تک تو صرف ریسکیو اور ہنگامی امداد کا کام جاری ہے اور اس کیلئے بھی وسائل اتنے کم ہیں کہ بلوچستان، پنجاب، پختونخوا اور سندھ کے بعض متاثرین تک ابھی تک کوئی مدد نہیں پہنچی۔ 

سوال یہ ہے کہ بحالی کے کام کیلئے یہ تیس چالیس ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ پھر اگر حکومت چند ارب ڈالر خیرات جمع کرنے میں کامیاب بھی ہوگئی تو صوبوں میں موجود کرپٹ ترین اور نااہل حکومتوں کے ہوتے ہوئے ان سے بحالی کا کام کماحقہ کیسے ہوسکے گا؟ وفاقی حکومت میں بھی صورت حال یہ ہے کہ بلاول بھٹو سب کچھ صوبہ سندھ اور پھر اپنے انتخابی حلقوں کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ 

مولانا صاحب کو صرف ڈی آئی خان اور ٹانک کی فکر ہے اور ہر روز وزیراعظم کو ہاتھ سے پکڑ کر اس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کا پوچھنے اور حق مانگنے والا کوئی نہیں اس لئے اس کے بعض متاثرہ اضلاع تک ابھی تک کچھ نہیں پہنچا ۔ پختونخوا میں سب سے زیادہ متاثرہ سوات میں وزیراعلیٰ اور ایم این ایز یا ،ایم پی ایز طالبان کے خوف سے خود اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے، کجا کہ وہ بحالی کے کام پر توجہ دے سکیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ سیلاب کورونا سے بھی بڑی آفت ہے اور سیاسی حوالوں سے یہ نہ صرف سیاسی حرکیات کو تبدیل کرکے رکھ دے گا بلکہ کسی بھی وقت متاثرین مشتعل ہوسکتے ہیں۔

اس لئے سیاستدانوں اور میڈیا سے التماس ہے کہ وہ کچھ وقت کیلئے سیاست اور ریٹنگ کو پس پشت ڈال کر سیلاب کو اپنی اولین ترجیح بنائیں تاکہ قوم کی اجتماعی ذہانت کو بروئے کار لاکر اس چیلنج سے نمٹنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :