Time 30 ستمبر ، 2022
بلاگ

30 ستمبر 1988 کو حیدرآباد کی دہشتگردی میں کہاں کیا ہوا؟ کتنی اموات ہوئیں؟

30 ستمبر 1988 بروز جمعہ کی شام ڈھلتے ہی کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشت گردوں نے منظم انداز میں حیدرآباد کے مخصوص قومیت کے مختلف علاقوں میں اندھا دھند فائرنگ اور دھماکے کیے— فوٹو: فائل
30 ستمبر 1988 بروز جمعہ کی شام ڈھلتے ہی کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشت گردوں نے منظم انداز میں حیدرآباد کے مخصوص قومیت کے مختلف علاقوں میں اندھا دھند فائرنگ اور دھماکے کیے— فوٹو: فائل

سندھ کے دوسرے بڑے اور پرامن ترین شہر حیدرآباد میں 34 سال قبل کی دہشتگردی میں کہاں کیا بربریت ہوئی اور کتنے بے گناہ اور معصوم شہری شہید کئے گئے؟ اس سلسلے میں درج 68 مقدمات حل طلب ہیں۔

30 ستمبر 1988 بروز جمعہ کی شام ڈھلتے ہی کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشت گردوں نے منظم انداز میں حیدرآباد کے مخصوص قومیت کے مختلف علاقوں میں اندھا دھند فائرنگ اور دھماکے کیے۔

کن علاقوں میں خونریزی ہوئی؟

اخبارات کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے شام ساڑھے 7 بجے کاروں اور موٹر سائیکل پر سوار ہوکر کلاشنکوفوں اور دیگر جدید اسلحہ سے حیدرآباد کے مختلف گنجان آباد علاقوں میں بربریت پھیلائی۔

گاڑی کھاتہ، ہیرآباد، مارکیٹ ایریا، لجپت روڈ، پریٹ آباد، قلعہ، لطیف آباد کے تمام علاقوں اور دیگر بازاروں میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ مسلح افراد نے ٹنڈو ولی محمد، روپ محل، سرے گھاٹ، تلک چاڑی، اسٹیشن روڈ، کھوکھر محلہ میں بھی فائرنگ کی۔

رپورٹس کے مطابق ہولناک خونریزی میں درجنوں افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ شہر کے مختلف علاقے قیامت صغریٰ کے مناظر پیش کر رہے تھے۔ شدید فائرنگ کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں زوردار دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔

دہشت گردی کی اس کارروائی میں میں گرے رنگ کی شیراڈ کار میں سوار مسلح افراد نے سب سے پہلے لجپت روڈ پر کھڑے ہوئے افراد پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف کاروں سے فائرنگ کی گئی۔

سڑکوں پر جابجا زخمی اور لاشیں پڑی تھیں اور لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ بازاروں اور محلوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ ان واقعات کے بعد سول اسپتال سمیت شہر کے دیگر اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی تھی۔

پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کو طلب کر لیا گیا تھا۔ شہر کے اسپتالوں میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ بستروں کی کمی کے باعث زخمیوں کو زمین پر لٹا کر علاج کیا گیا۔

جمعہ کی رات گئے تک صورتحال انتہائی سنگین تھی اور پورے شہر میں خوف و ہراس طاری تھا۔ مسلح افراد نے لطیف آباد نمبر 2 میں اس وقت کے میئر حیدرآباد آفتاب احمد شیخ کی رہائش گاہ کو بھی نشانہ بنایا۔ آفتاب شیخ کے محافظ پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ پر ملزمان فرار ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایک گاڑی سے ملزمان کا ٹاکرا ہوا تو ملزمان لطیف آباد نمبر 2،  لطیف آباد نمبر 4 کے الگ الگ راستوں پر فرار ہوئے۔

اس روز کے اخبارات کی رپورٹس کے مطابق این پی پی کے مقامی رہنما محمد عثمان کینڈی کی کار اور گھر پر بھی فائرنگ کی گئی۔ رپورٹس کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑی سے ٹکر مار کر ایک گاڑی کو روک لیا گیا تھا۔ اس دوران ایک دہشت گرد فرار ہوگیا جبکہ دیگر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

فائرنگ میں ملوث نارنجی رنگ کی کار سلاوٹ محلہ میں وارث کھڑی ہوئی ملی۔ عینی شاہدین کے مطابق اس میں سوار تین مسلح افراد فرار ہوگئے تھے۔ 

ان واقعات کے بعد حیدرآباد کے رات گئے تک کھلے رہنے والے بازار مارکیٹیں اور ہوٹل بند کر دیے گئے۔ لوگ جان بچانے کے لیے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہر سنسان ہوگیا۔ شہر میں بدامنی کے واقعات کے بعد ایدھی ویلفیئر، ہلال احمر اور دیگر فلاحی اداروں کی ایمبولینسز حرکت میں آگئیں۔ 

بعض مقامات پر ایمبولینسز اور پولیس نہ پہنچنے کی بھی رپورٹس ملیں۔ لطیف آباد بعد میں مشتعل افراد نے پولیس کی گاڑی پر ہلہ بول دیا جس سے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

ہلاکتیں

اخبارات کے مطابق 30 ستمبر 1988 کو سانحہ حیدرآباد میں 60 افراد جاں بحق ہوئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن  اور اس روز سرکاری خبر رساں اداروں کی رپورٹ مصدقہ تھیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے 148 افراد کی المناک اموات کی خبر نشر کی۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق 120 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 187 زخمی ہوئے۔

ایک اخبار نے ہلاکتوں کی تعداد 80 شائع کی جبکہ 220 افراد زخمی ہوئے۔ دو دیگر اخبارات نے 60 اموات کی خبر شائع کی۔

ایک دن بعد کے اخبارات میں 160 سے زائد تعداد ظاہر کی گئی جو گزرتے وقت کے ساتھ 256 تک چلی گئی۔ 

مقدمات

سانحہ حیدرآباد کا سرکار کی مدعیت میں صرف ایک مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد شہید ہونے والوں کے عزیزواقارب نے اپنے طور پر سٹی، مارکیٹ، لطیف آباد اے سیکشن، ہوسٹری اور پھلیلی تھانوں میں لگ بھگ 68 مقدمات درج کرائے۔

ان پرتشدد واقعات میں جتنے لوگ جاں بحق ہوئے ان سب کی شناخت تو سامنے نہیں آسکی البتہ واقعے کے اگلے روز شائع ہونے والے اخبارات میں جن لوگوں کی اموات کی تصدیق ہوئی ان میں کالی موری میں محمد الیاس، منظور اور ظہور احمد، ہیرآباد میں عرفات اور پانڈی، گاڑی کھاتا میں تین افراد، کوہ نور سینما کے قریب انور اور رحمٰن،  پکا قلعہ پر ساقیہ، ڈاکٹر فرزانہ، مسز صفدر، جمیلہ اقبال، بچہ جنید اور لطیف آباد نمبر 9 میں اختر، سید غلام شبیر، ثروت الطاف، محمد صالح، محمد اسلم، محمد جاوید، محمد شفیع، محمد اسحاق، طالب، چراغ، علی حسن، دلیپ کمار، محمد آصف، لونگ اور اشفاق شامل تھے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔