پاکستان
Time 06 اکتوبر ، 2022

میرا پسندیدہ آمر

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

مصر کے آمر جنرل عبدالفتح السیسی کو اقتدار پر قابض ہوئے ایک عشرہ ہونے کو آیا۔ جمہوری طورپر منتخب مُرسی حکومت کا تختہ الٹ کر صدارت سنبھالنے والے سابق وزیردفاع اور فوجی سربراہ السیسی نے ایسا کیا گھول کے پلایا ہے کہ جمہوریت کا چیمپئن کہلانے والا امریکا اور اس کے حواری سب السیسی کے گُن گا رہے ہیں اور کسی کو یاد بھی نہیں کہ پچھلے زمانے میں کوئی محمد مُرسی بھی تھا۔

السیسی ماڈل پر غور کیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کب آمریت اس قدر اہمیت اختیار کرلیتی ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکمرانوں کا بستر گول کردیا جائے تو چٹ بھی اپنی رہتی ہے اور پٹ بھی اپنی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ مغربی ممالک بھی اس آمر کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔

مصر پر تین عشروں تک راج کرنے والے حُسنی مبارک کا دور جب سن دوہزار گیارہ میں مظاہروں کے ذریعے ختم کیا گیا تھا تو جمہوری طورپر منتخب محمد مُرسی نے صدارت سنبھالی تھی۔ چونکہ مبارک ماضی میں فوجی افسرتھے اس لیے منتخب حکومت کے برسراقتدار آنے پر عوام کچھ عرصے کے لیے اس واہمے میں مبتلا ہوگئے تھے کہ جیسے ملک سے کبھی بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا تھا، آمروں کے برسراقتدار آنے کا در بھی ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیاہے۔

مغرب سے پڑھ لکھ کر لوٹے یہ وہی مُرسی تھے جو نیا مصربنانے نکلے تھے،ایسا مصر جس کی بنیاد اسلام یعنی لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پرہونا تھی مگر ان کے دور میں معیشت کا ایسا کباڑا ہوا کہ عوام پچھلے سارے دوربھول گئے۔

مُرسی کی شاید سب غلطیاں معاف ہوجاتیں مگر جانے انجانے میں وہ فوج سے لڑائی مول لے بیٹھے۔جس جنرل عبدالفتح السیسی کو مذہبی شخص سمجھ کر مُرسی نے آرمی چیف مقرر کیا وہی انکا تختہ الٹنے کا ذریعہ بنا یعنی مُرسی اور السیسی میں کچھ ایسا ہی تعلق بنا جو بھٹو اور ضیا کے درمیان تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جاسوسی جیسے الزامات میں مُرسی کو جیل میں ڈالا گیااور وہ دل کادورہ پڑنے سے چل بسے۔

السیسی نے مُرسی کا تختہ الٹنے کے بعد قوم سے خطاب میں الیکشن کا وعدہ کیا تھا، کچھ ایسا ہی وعدہ جیسا ہمارے جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کیا تھا۔ صاحب نظرجانتے تھے کہ فوج اقتدار اس لیے نہیں سنبھالتی کہ اس ہاتھ لے، اس ہاتھ دے، کچھ ایسا ہی مصر میں بھی ہوا کہ السیسی فیلڈ مارشل بنے اور پھر صدارت کے منصب پرخود کوفائض کرلیا۔ یوں کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ مشرف صاحب سے بھی آگے نکل گئے اور ایسی آئینی تبدیلیاں بھی کرڈالیں کہ جیتے رہے تو سن دوہزار تیس تک بھی وہ کرسی صدارت پر براجمان رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے باوجود امریکا اور خطے کی طاقتوں سے جنرل السیسی نے پینگھیں بڑھائیں کیسے؟

السیسی کی کامیابی کے دو راز ہیں۔ چونکہ وہ انٹیلی جنس چیف رہ چکے ہیں، اس لیے داخلی سطح پر مظاہروں،سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر قابو پانے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی جگہ بنانے کا طریقہ بھی انہوں نے عمدگی سے نکال لیا۔

بحیرہ احمر میں دو متنازعہ جزیروں کی خودمختاری سعودی عرب کو سونپ کر السیسی نے سعودی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی اوراسطرح امریکا اور اسرائیل کے سامنے بھی اپنی اہمیت بہتر کی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےدور میں اسرائیل، لیبیا،یمن، شام اورلبنان جیسے ممالک سے متعلق امور میں اپنے کردار پرامریکا کی قربت مزید سمیٹ کر انہوں نے اپنی جگہ اور مضبوط کی۔ دو ملاقاتوں میں صدرالسیسی نے ڈونلڈٹرمپ جیسے امریکی صدر کو شیشے میں ایسا اتارا کہ ڈونلڈ ٹرمپ السیسی کو 'میراپسندیدہ آمر' کہے بنا نہ رہ سکے۔

صدر بائیڈن کے دور میں السیسی نے اپنی اہمیت یوکرین اشو سے بڑھائی۔ امریکی صدر سے جدہ میں کی گئی ملاقات سے چند ہی ماہ پہلے مصر نے روس کیخلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں میں امریکا کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

ایک ایسا مصر جس کاحکمران خطے اور مغرب کے لیے قابل قبول ہو ، وہاں عام انتخابات پر کون زور دے گا؟ کسے پڑی ہے کہ ایسے الیکشنز کرائےجائیں جن کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی کا ڈر ہو، ملک غیریقینی صورتحال کا شکار ہو اور نتیجہ اس پھول جیسا ہو جو بن کھلے مرجھا جائے۔

السیسی اس دور کے اہم فوجی رہنما سہی مگر لوگ جانتے ہیں کہ اسی خطے ہی کیا خود پاکستان میں بھی اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔ جنرل ضیا جیسے آمر بھی اسی خطے میں گزرے ہیں جنہوں نے سوویت یونین کیخلاف وہی پالیسی اپنائی تھی جو مصر نے کسی حد تک یوکرین پر اپنائی ہے۔یہیں جنرل پرویز مشرف بھی گزرے ہیں جنہوں نے افغانستان جنگ کو طویل عرصے کیش کرایا۔

السیسی اور ان جیسے دیگر آمروں کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش تو دنیا میں کتنے ہی جرنیلوں کے دلوں میں مچلتی ہے، ایسی خواہش کہ اس خواہش پہ دم نکلے مگرکڑی آزمائش کو سنہری موقع میں تبدیل کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔

مزید خبریں :