08 اکتوبر ، 2022
سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو میں 1999سے جانتا ہوں۔ ہمارا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔ ان کا ایک ایسے خاندان سے تعلق ہے ، جس میں سیاسی لوگ بھی شامل ہیں اور بیوروکریٹس بھی لیکن اعظم خان ان سب میں مختلف ہیں، وہ اپنی شخصیت کے لحاظ سے بالکل عمران خان کی کاپی ہیں۔
جس طرح عمران خان کی دنیا ان کی ذات سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہے، کم وبیش اعظم خان بھی ویسے ہی ہیں تاہم ایک حوالے سے وہ مختلف بھی ہیں ۔ وہ یوں کہ انہوں نے بیوروکریسی میں اپنا ایک گروپ بناکر، اسے نواز رکھا ہے اور اس وقت بھی نہ صرف خیبر پختونخوا کو ان کے سلیکٹڈ بیوروکریٹس چلارہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت میں بھی ان کے گروپ کے کئی لوگ اہم عہدوں پر تعینات ہیں۔
ان کے ساتھ میری تعلق داری کا واسطہ ہمارے ایک اور مشترکہ دوست تھے اور ان کی وجہ سے زندگی میں ایک دو بار ان کی سفارشیں بھی کرنی پڑیں۔وہ ڈی سی پشاور سے لے کر پولیٹکل ایجنٹ وزیرستان کے عہدے پر فائز رہے اور جب تک ہماری میل ملاقات ہوا کرتی تھی ، وہ قوم پرستانہ خیالات کے حامل اور فوج کے سخت ناقد تھے۔ تاہم مشرف کی حکومت میں بھی وہ اچھی جگہوں پر تعینات رہے۔
اے این پی کے رہنماؤں کے ساتھ چونکہ ان کے خاندانی تعلقات تھے اس لئے اے این پی کے دور حکومت میں ان کو من پسنداورنفع بخش پوسٹنگز ملتی رہیں اور پرویز خٹک بھی چونکہ اے این پی کی حیدر ہوتی کابینہ کا حصہ رہے تھے، اس لئے ان کی آپس میں اَن بن ہو گئی تھی اور وہ اعظم خان کو سخت ناپسند کرنے لگے۔
یوں بھی اعظم خان نظریاتی طور پر پی ٹی آئی کے مخالف تھے ۔ جب پرویز خٹک وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اعظم خان کو کھڈے لائن لگا دیا لیکن جب پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کے اختلافات شروع ہوئے تو انہوں نے ایک وسیلے سے جہانگیر ترین اور پھر ان کے ذریعے عمران خان تک رسائی حاصل کی۔
عمران خان نے انہیں ہر حوالے سے اپنے جیسا پایا اور کچھ ہی عرصہ میں وہ اعظم خان کی بوتل میں مکمل طور پر بند ہوگئے۔ یوں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی مرضی کے بغیر انہیں جہانگیر ترین اور عمران خان نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کیا ۔ کچھ عرصہ بعد انہیں پرویز خٹک کی مرضی کے خلاف پختونخوا میں چیف سیکرٹری تعینات کر دیا اور یہاں سے ان کی گڈی مزید چڑھ گئی۔
2018 کے انتخابات میں جب عمران خان کو وزیراعظم سلیکٹ کروایا گیا تو اپنے پرنسپل سیکرٹری کے لئے انہوں نے اعظم خان کو چنا۔ ابھی نوٹیفیکیشن نہیں ہوا تھا کہ میری اعظم خان سے بات ہوئی تو میں نے فواد حسن فواد کے انجام کی مثال دے کر ان سے درخواست کی کہ وہ یہ منصب نہ لیں اور اس کی جگہ چیف سیکرٹری ہی رہیں لیکن بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان کی اپنی کوشش بھی اس منصب کا حصول تھا۔
چنانچہ وہ پرنسپل سیکرٹری بنے ۔ جب انہوں نے پرنسپل سیکرٹری کا منصب سنبھالا تو میں نے زیادتی کے شکار ایک افسر کے بارے میں ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے نگران دور میں ہونے والی زیادتی کا ازالہ کریں۔ اس افسر سے ہمدردی کی ایک وجہ یہ تھی کہ آفتاب شیرپائو پر خودکش حملے میں ان کے دو بھائی شہید اور وہ خود زخمی ہوگئے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر انہوں نے آنکھیں بدلیں اور مسئلہ حل کرنے کی بجائے انہوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔
اس افسر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کچھ دنوں بعد عدالت کے ذریعے ہوگیا لیکن وہ دن اور آج کا دن پھر میری اور اعظم خان کی کوئی بات ہوئی اور نہ ملاقات ۔وہ ڈیفیکٹو وزیراعظم بن کر انجوائے کرتے رہے اور ہم عمرانی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کو برداشت کرتے رہے ۔لیکن ایک بات نے مجھے حیران کیا کہ اعظم خان کیوں تبدیلی سرکار کا حصہ بننے کے بعد اتنے تبدیل ہوگئے ۔ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری بننے سے قبل وہ اپنی قابلیت ،اناپرستی اور اکڑ کی وجہ سے مشہور تھے لیکن تبدیلی سرکار کا حصہ بننے کے بعد یہ تبدیلی آئی کہ وہ عمران خان کے کہنے پر ہر جائز اور ناجائز کام کرتے رہے ۔
بشیر میمن کو باتھ روم میں لے جانے اور عمران خان کی بات ماننے پرقائل کرنے کا قصہ میں نے ڈیڑھ سال قبل رپورٹ کیا تھا اور خود بشیر میمن نے یہ قصہ عمران خان کی حکومت کے دوران جنوری 2022میں ایک انٹرویو کے دوران مجھے سنایا۔ بشیر میمن کے مطابق عمران خان نے جب ان سے مطالبہ کیا کہ وہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کی بنیاد پر مریم نواز، خواجہ آصف ، احسن اقبال اور دیگر کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ بنائیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ آرٹیکل چھ بہت بڑی بات ہے اور اس کی بنیاد پر اگر وہ مقدمہ بنائیں گے تو عدالت اس کو اڑا دے گی ۔
عمران خان نے اعظم خان کی موجودگی میں انہیں محمد بن سلمان کی مثال دی اور کہا کہ ایک طرف ان کے ماتحت ان کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں اور دوسری طرف آپ جیسے لوگوں کو میں حکم دیتا ہوں تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہو۔ اس پر بشیر میمن کا دماغ بھی گھوم گیا اور انہوں نے عمران خان سے کہا کہ سر ! آپ عجیب بات کررہے ہیں ۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ویڈیو ایف آئی اے کے پاس جج ارشد ملک کی پڑی ہے جس کی فارنزک بھی ہوچکی ہے اور انہیں سزا دینے کی بجائے آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں ویڈیو چلانے والوں کے خلاف مقدمہ قائم کروں اور وہ بھی آرٹیکل چھ کے تحت ۔
یوں دونوں کی تلخی ہوگئی ۔ چنانچہ اعظم خان انہیں اپنے ساتھ باہر لے گئے ۔ بشیر میمن کے بقول ان کے دفتر میں لوگ بھی بیٹھے تھے اور بگنگ کا بھی خطرہ تھا اس لئے وہ انہیں اپنے ساتھ باتھ روم میں لے گئے اور کنڈی لگا کر انہیں قائل کرتے رہے کہ وہ وزیراعظم کی بات مان لیں۔ وہ بشیر میمن کو عمران خان کی ناراضی کے برے نتائج سے بھی متنبہ کرتے رہے لیکن بشیر میمن اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
بہرحال اس ’’گستاخی‘‘ کی سزا اگلے ہی دن بشیر میمن کو ملنا شروع ہوگئی اور جب تک عمران خان اقتدار میں رہے، وہ زیرِعتاب رہے ۔اب اس واقعے کی آڑ لے کر فواد چوہدری نے کاشف عباسی کے پروگرام میں تمام پختونوں کی توہین کی لیکن افسوس کہ پختون اعظم خان خاموش ہیں۔ کم از کم اب تو سامنے آکر انہیں اس حوالے سے اپنی وضاحت پیش کرنی چاہئے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ میری پیشنگوئی کے مطابق وہ فواد حسن فواد کے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
نہ جانے ہم لوگ طاقت ، شہرت اور اختیار کے نشے میں کیوں مکافات عمل بھول جاتے ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں لیتے ۔حالانکہ قرآن میں اللّٰہ نے واضح الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ :اور ہم لوگوں کے درمیان اسی طرح دنوں کو پھیرتے ہیں۔