18 اکتوبر ، 2022
ضمنی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر واضع ہونے والی صورتحال کو حقیقی رنگ میں دیکھنے یا محسوس کرنے کے لئے فاتح یا مفتوح کوئی فریق تیار نہیں۔۔فریقین اس نتیجے کو اپنے اپنے معنی پہنا رہے ہیں۔
پی۔ٹی۔آئی قومی اسمبلی کی 8 نشستوں میں سے 6 دوبارہ جیت کر خود کو فاتح تصور کر رہی ہے اور عوام میں یہ تصویر پیش کر رہی ہے کہ اس نے اپنی مقبولیت نہیں کھوئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ واضع اشارہ دیا ہے کہ عمران خان نے اپنے ہی حلقوں میں 25 فیصد مقبولیت کھو دی ہے یعنی 8 میں سے 2 نشستیں ہار دی ہیں جبکہ عمران خان نے اپنی پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو بچانے کے لئے جن 6 نشستوں کو بچانے کے لئے اپنا کندھا دیا تھا ان میں سے بھی ایک سیٹ ہار گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ملتان سے پی۔ٹی۔آئی۔ کی شکست اور پیپلز پارٹی کی کامیابی عمران کے لئے عمومی اور شاہ محمود قریشی کے لئے خصوصی طور پر خطرے کی گھنٹی کی صورت میں اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ خدا وند عالم کو تکبر پسند نہیں اور وہ بڑے بڑے قلعوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
پنجاب حکومت کے اندرونی مخالفین کا صحیح یا غلط مؤقف ہے کہ ملتان کی نشست پر تحریک انصاف کی شکست وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی جانب سے شاہ محمود قریشی کی مخالفانہ رویہ کا جواب ہے کیونکہ پرویز الٰہی بھی موقع محل کے مطابق سیاست کی دکان چلانے پر ایمان رکھتے ہیں اور انہوں بے جنرل مشرف کے دور اقتدار میں ان کی حکومت میں شامل ہو کر ان کی سیاست ان کی طرز سیاست پر منفی رنگ چڑھا کر جس طرح اس کا حلیہ بگاڑا تھا اس کا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا تھا۔
اسی موقعہ پرستی کی سیاست کے طفیل جنرل مشرف کو بدترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے ملک بدر ہونا پڑا جبکہ پرویز الٰہی نے عمران خان کی مقبولیت کے طفیل پھر صرف 10 سیٹوں کے سہارے پنجاب پر حکومت جما لی اور تحریک انصاف کو بے دخل کر کے عملی طور پر پارٹی میں اختلافات کی بنیاد ڈالی دی اور اختلاف کرنے والے کلیدی حیثیت رکھنے والے بعض راہنماؤں کی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔
ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتوں نے ریاستی اختیارات اور وسائل استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کئے ہیں ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے تو سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے لیکن ہارنے والے بیشتر لوگوں نے اپنے اپنے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور انہیں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نتائج کو ریاستی طاقت کے زیراثر قرار دیا ہی۔
عمران خان کی طرز سیاست سے اختلاف کرنے والے بعض پارٹی رہنماؤں نے قومی اسمبلی کی 8 میں سے 6 نشستوں پر خود الیکشن لڑنے کے اقدام پر شدید الفاظ میں تنقید کیا اور عمران خان کی اس حرکت کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ثابت یہ ہوتا کہ تحریک انصاف صرف عمران خان ہے اور ان۔کے علاوہ ایسا کوئی الیکٹیبل لیڈر پارٹی میں موجود نہیں جسے الیکشن جیتنے کے لئے میدان میں اتارا جا سکے اور ہر جگہ عمران خان کا چہرہ نہ بیچنا پڑے۔
کیا عمران خان سیاسی رموز سے اس قدر نابلد ہیں انہیں ایسے حالات سے آگاہی نہ ہو کہ ایک سیٹ کے علاوہ انہیں تمام نشستیں چھوڑنا ہونگی اور ان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر پھر الیکشن ہونے ہیں اور اس طریقے سے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت نہیں بنا سکتے خواہ وہ سو بار بھی پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر الیکشن لڑکر جیت کیوں نہ جائیں الیکشن کا میدان تو پھر بھی سجے گا۔
دوسری جانب پی۔ڈی۔ایم کی پوزیشن جنھوں نے کچھ گنوائے بغیر قومی اسمبلی میں اپنی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
ان نتائج نے پی۔ڈی۔ایم کی اس امید پر پانی پھیر دیا اور قیاس آرائیاں غلط ثابت ہو گئیں کہ عمران خان کے خلاف منظر عام پر لائے جانے والے آڈیو لیکس کے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت میں واضع کمی ہو گی اور ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو بد ترین شکست کی ہزیمت کا سامنا کرنا ہو گالیکن نتیجہ ان کی خواہشات کے برعکس نکلا اور خود انہیں شرمندگی اٹھانا پڑی لیکن پی۔ڈی۔ایم کا کہنا ہے پارلیمنٹ کی 11 میں سے 3 نشستوں پر تحریک انصاف کی شکست ان کی تنزلی کا نقطہ آغاز ہے۔
دوسرا انتہائی حساس اور اہم معاملہ امریکی صدر جو بائیدن کا ایک بیان ہے جس میں انہوں نے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بائیڈن کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد بائیڈن کو بھی ٹرمپ جیسے عالمی راہنماؤں کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔