پاکستان پرامن ملک کیسے بنے؟

یہ سوال اکثر چٹکیاں کاٹتا ہے کہ بد امنی ہمارے معاشرے کا مقدر کیوں ہے؟ آخر آئس لینڈ بھی تو اسی دنیا کا حصہ ہے جہاں گزشتہ برس قتل کی صرف ایک واردات ہوئی، سنگا پور میں بھی تو انسان ہی بستے ہیں جہاں مسلسل کئی ماہ تک پولیس حکام مکھیاں مارتے رہتے ہیں کیونکہ چوری یا ڈکیتی کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔

Institute of economics and peaceکے نام سے ایک عالمی ادارہ ہے جو 23مختلف انڈیکیٹرز کی بنیاد پر ہر سال یہ رپورٹ جاری کرتا ہے کہ امن عامہ کے حوالے سے کس ملک میں حالات بہتر ہوئے اور کہاں حالات بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ میں جب سے یہ رپورٹ دیکھ رہا ہوں، پاکستان ہمیشہ نیچے سے فرسٹ آتا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان کا شمار 162 ممالک کی فہرست میں عراق، افغانستان، جنوبی سوڈان، صومالیہ اور کانگو کے ساتھ ان دس ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پرتشدد ممالک کا درجہ حاصل ہے جب کہ پر امن ترین ممالک میں پہلے نمبر پر آئس لینڈ ہے، ڈنمارک دوسرے نمبر پر ہے۔ 

آسٹریا پرامن ممالک کی فہرست میں تیسرے، نیوزی لینڈ چوتھے جبکہ سوئٹزر لینڈ پانچویں نمبر پر ہے۔ کرائم انڈیکس میں کمی کے باعث فن لینڈ کا شمار پرامن ترین ممالک کی فہرست میں چھٹے، کینیڈا کا ساتویں، جاپان کا آٹھویں، آسٹریلیا کا نویں جبکہ جمہوریہ چیک کا شمار دسویں نمبر پر ہوتا ہے۔ دس پرامن ترین ممالک جن کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے 6 یورپ میں ہیں۔ آئس لینڈ جسے دنیا کا پر امن ترین ملک قرار دیا گیا ہے، گو یہ ترقی یافتہ ملک ہے اور پیداواری اعتبار سے اس کا شمار دنیا کے ساتویں بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے لیکن میں نے سوچا 3لاکھ 29ہزار افرادپر مشتمل آبادی کے ایک چھوٹے سے ملک کو کنٹرول کرنا کونسا بڑی بات ہے۔ 

ہمارے ملک کی سرحدیں تو گوادر سے کراچی اور خیبر سے لاہور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں تو انواع و اقسام کے قبائل اور رنگ برنگی اقوام آباد ہیں۔ پنجاب میں محض جاٹوں کی ہی برادریاں شمار کرنے بیٹھیں تو گنتی بھول جائے۔ خیبر پختونخوا میں خوانین و ملک قابل شمار نہیں، سندھ میں بلوچوں کی ان گنت اقسام ہیں، سندھ میں قبائل، برادریوں اور ذاتوں کا ذکر ہو تو شاید ہی کوئی حرف تہجی ایسا ہو جس سے کوئی قومیت جنم نہ لیتی ہو۔ مذہبی، مسلکی، گروہی، لسانی اور علاقائی تعصب کی دیواریں اس قدر ہیں کہ سمجھ نہیں آتی قومیت کا سفرکہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم ہو۔ 

ایسے رنگ برنگے معاشرے میں کوئی امن قائم کر کے دکھائے تو ہم بھی مانیں مگر پرا من ممالک کی فہرست دیکھتے ہوئے کینیڈا پر نظر پڑی تو یہ غلط فہمی بھی رفع ہو گئی کہ پاکستان کا معاملہ بہت نرالا اور منفرد ہے۔ کینیڈا کے وسیع المشرب معاشرے میں ہر پس منظر کے لوگ ہیں۔پاکستانی، ہندوستانی، چینی، جاپانی، جرمن، ہسپانوی، اطالوی، افغانی، ایرانی، گورے، کالے، نیم گورے، پیور وائٹ، بلیک اینڈ وائٹ مگر کبھی ثقافت کے نام پر کوئی دنگا فساد نہیں ہوا۔ مذہب کے خانے میں 63.3فیصد کینیڈین شہری خود کو عیسائی قرار دیتے ہیں جن میں سے 38.7فیصد کیتھولک ہیں۔ 23.9فیصد آبادی کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتی اور لادین ہے۔ باقی 8.8فیصد آبادی کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے جن میں مسلمان، بودھ، ہندو، سکھ، پارسی اور شنتو مذہب سمیت دیگر عقائد کے پیروکار شامل ہیں۔ گویا عیسائیت وہاں اکثریت کا مذہب ہے مگر ریاست نے طے کر رکھا ہے کہ ا س کا نہ تو کوئی سرکاری مذہب ہے اور نہ ہی کوئی لگی بندھی ثقافت ہے جس کی توہین کے نام پر مخالفین کی مشقیں کسی جا سکیں۔

 مسلمان اپنے لئے کمیونٹی سنٹرز بناتے ہیں، سکھوں کیلئے گردوارے موجود ہیں، ہندوئوں کو مندر بنانے کی آزادی ہے، عیسائیوں کو چرچ دستیاب ہیں ،کسی شہری پر کوئی قد غن نہیں، کہیں یہ لکھا دکھائی نہیں دیتا کہ پروٹیسٹنٹ ازروئے عیسائیت کافر ہیں لہٰذا دکان میں داخل نہیں ہو سکتے یا ان کے ساتھ لین دین حرام ہے۔ آپ سبزی خور ہیں یا گوشت خور، حلال کھاتے ہیں یا حرام، ریاست کو ا س بات سے کوئی غرض نہیں۔

 وہاں چار بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، کنزرویٹو پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی، لبرل پارٹی اور گرین پارٹی مگر ان میں سے کوئی مذہب، عقیدے یا مسلک کی بنیاد پر قائم نہیں۔ نہ کوئی سیاست چمکانے کے لئے کسی کو کافر کہتا ہے اور نہ ہی کسی پر غداری کا الزام لگتا ہے۔ چونکہ بیشتر علاقوں میں انگلش اور فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے اسلئے ان دونوں زبانوں کو سرکاری اوردفتری زبان کا درجہ حاصل ہے مگر ہر بچے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ابتدائی تعلیم کے دوران اپنی مادری زبان کو بطور اختیاری مضمون منتخب کر سکے۔ وہاں چائینیز، اسپینش، جرمن، پشتو، پنجابی اور اطالوی زبان بولنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے مگر لسانیت کی بنیاد پر کبھی کوئی تحریک نہیں چلی۔ ہر سال وہاں امیگریشن کے تحت مختلف نسل ،رنگ اور زبان سے تعلق رکھنے والے افراد شہریت حاصل کرتے ہیں مگر کبھی مقامی یا مہاجر کی اصطلاح سننے کو نہیں ملی۔

خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ کینیڈاکا شمار 11ویں بڑی معیشت کے طور پر ہوتا ہے۔فی کس آمدن کے اعتبار سے کینیڈا دنیا بھر کے ممالک میں 10ویں نمبر پر ہے۔ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس، جس سے لوگوں کے حالات زندگی کا اندازہ ہوتا ہے، کے حساب سے کینیڈا 8ویں نمبر پر ہے۔پر امن ترین ممالک کی فہرست میں کینیڈا 7ویں نمبر پر ہے جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ رواداری اور بقائے باہمی کا یہ عالم ہے کہ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں کی حُب الوطنی مشکوک ہو گئی لیکن کینیڈا میں ان کی وفاداری پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

 سوال یہ ہے کہ اگر کینیڈا بھی اسی نظام شمسی کا حصہ ہے اور وہاں بھی انواع و اقسام کے انسان بستے ہیں تو ان کے برعکس ہمارے ہاں تشدد کا عنصر کیوں ہے ؟اس سوال کا جواب معلوم کرنا ہو تو کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوکا طرزعمل دیکھ لیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔