بلاگ
Time 05 نومبر ، 2022

اسٹریٹ کرائم کی ایک واردات اور 3 جماعتیں

کار کے شیشے پر ہوئی ٹَھک ٹَھک پر میں نے چونک کر موبائل فون سے توجہ ہٹا کر باہر دیکھا تو ایک شخص ہاتھ کے اشارے سے مجھے کار کا شیشہ نیچے کرنے کے لیے کہہ رہا تھا— فوٹو: فائل
کار کے شیشے پر ہوئی ٹَھک ٹَھک پر میں نے چونک کر موبائل فون سے توجہ ہٹا کر باہر دیکھا تو ایک شخص ہاتھ کے اشارے سے مجھے کار کا شیشہ نیچے کرنے کے لیے کہہ رہا تھا— فوٹو: فائل

کار کے شیشے پر ہوئی ٹَھک ٹَھک پر میں نے چونک کر موبائل فون سے توجہ ہٹا کر باہر دیکھا تو ایک شخص ہاتھ کے اشارے سے مجھے کار کا شیشہ نیچے کرنے کے لیے کہہ رہا تھا، میں اس وقت ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا اور 915 پر کال کرنے پر پتہ چلا تھا کہ آگے سائٹ کے علاقے میں بجلی کی عدم فراہمی پر کوئی احتجاج ہورہا ہے جس کی وجہ سے سڑک بند اور ٹریفک جام ہے۔

یہ بات آج سے 7/8 سال پرانی ہے جب میرے ساتھ گارڈ نہیں ہوتا تھا، مجھے جیو کی طرف سے گارڈز  2015 میں اس وقت دیے گئے جب مجھے گھر سے آفس جاتے ہوئے راستے سے اغوا کیا گیا اور کئی گھنٹے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ویران سڑک پر چھوڑ دیا گیا۔

ابتداء میں، میں یہی سمجھا کہ یہ شخص مظاہرین میں سے کوئی ہے جو مجھے واپس جانے کے لیے کہہ رہا ہے، میں نے ہاتھ کے اشارے سے اس سے سوال کیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے اور اس کا جواب اس نے سائیڈ سے اپنی قمیص اٹھا کر دیا، اس نے اپنے نیفے میں پستول اڑسا ہوا تھا۔ اسی دوران مجھے پسنجر سائیڈ والے شیشے پر بھی ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دی اور جب میں نے اس طرف دیکھا تو وہاں بھی ایک صاحب موجود تھے میں نے ٹھنڈی سانس لی اور شیشہ نیچے کردیا میرے شیشہ نیچے کرتے ہی اس شخص نے میرے ہاتھ میں موجود موبائل فون مجھ سے چھین لیا اور  پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے پیچھے ہٹتے ہی وہ شخص جس نے پسنجر سائیڈ سے شیشہ نیچے کرنے کے لیے کہا تھا وہ ڈرائیونگ سائیڈ کی طرف آیا اور دونوں سیٹوں کے درمیان گیئر بکس پر رکھے ہوئے میرے مزید دو فونز بھی مجھے اٹھا کر دینے کے لیے کہا، یہ فون اسے پسنجر سائڈ کے شیشے سے اندر جھانکنے پر نظر آگئے تھے۔ اس کامیاب واردات کے بعد دونوں باآسانی فرار ہوگئے۔

اسٹریٹ کرائم کا نشانہ بننے والے شہریوں کی بے بسی کا احساس مجھے اس لمحے پہلی بار شدت سے ہوا ، روزانہ درجنوں شہریوں سے اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کی خبریں بنانا انہیں اپنے پروگرام ’جیو ایف آئی آر‘ میں رپورٹ کرنا یا جیو نیوز پر بیپر دینا ایک الگ بات ہے اور خود اس "لمحے" سے گزرنا بالکل الگ بات ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس واردات کے بعد میں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا، پولیس پریشان تھی کہ وہ کیسے اس صورتحال سے نمٹے لیکن میرا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ملزمان گرفتار کرو۔ اس سلسلے میں، میں نے پولیس کی یہ مدد کی کہ انہیں ملزمان کا حُلیہ تفصیل سے بتایا، میرا کہنا تھا کہ وہ شخص جس نے پہلے ڈرائیونگ سائیڈ سے واردات کی اس کا قد غیرمعمولی لمبا تھا، اتنا لمبا کہ وہ میری کار کے اندر جھانکنے کے لیے تقریباً رکوع کے بل جھکا ہوا تھا، ایسے ملزم کو تلاش کرنا زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پولیس جب کام کرنا چاہے تو وہ کورکمانڈر پر حملے کے ملزم سے لے کر بغیر ٹریکر کے بکرے کی چوری کا ملزم بھی پکڑ لیتی ہے۔

کچھ ایسا ہی اس واردات کے بعد بھی ہوا، موجودہ ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ اس وقت ایس ایس پی ویسٹ تھے، چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ڈی ایس پی سائٹ سہراب میئو نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انہوں نے ملزمان پکڑ لیے ہیں مجھے ایک اور نمبر پر دونوں ملزمان کی تصاویر بھیجی گئیں جنہیں میں نے شناخت کرلیا۔ یہ دونوں ملزمان سائٹ کے علاقے میں ایک چارپائی ہوٹل کی چارپائیوں پر دراز  پائے گئے تھے۔ میں نے ڈی ایس پی سہراب میئو سے موبائل فونز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ واردات کے فوری بعد ملزمان نے میرے تینوں موبائل فونز ناظم آباد کے علاقے میں سیف اللہ کے اڈے کے پیچھے ایک ہائیڈرنٹ پر انور نامی شخص کے حوالے کردیے تھے جو اسٹریٹ کرمنلز سے چوری اور چھینے گئے موبائل فونز خریدتا ہے۔

پولیس نے انور کی تلاش میں چھاپہ مارا لیکن وہ نہیں ملا، اس دوران دو دن گزر گئے، سائٹ پولیس اور گلبہار پولیس دونوں انور کو تلاش کررہی تھیں کہ اسی دوران ایک شخص خود چل کر تھانے آیا۔ موصوف علاقے سے ایک سیاسی جماعت کے امیدوار برائے قومی اسمبلی تھے، انہوں نے پولیس سے دریافت کیا کہ وہ انور کو کیوں تلاش کررہی ہے، انہیں بتایا گیا کہ اس طرح سے میرے ساتھ واردات ہوئی ہے اور چھینے گئے موبائل فونز انور کے حوالے کیے گئے تھے، یہ صاحب یہ سن کر تھانے سے چلے گئے اور چند گھنٹوں کے بعد تین موبائل فونز کے ساتھ واپس آئے کہ ان میں سے دیکھ لیا جائے کہ کون سا فہیم صدیقی صاحب کا ہے۔

ڈی ایس پی سہراب میئو رات گئے وہ فونز لے کر میرے پاس آئے، ان 3 فونز میں سے ایک میرا تھا جبکہ دو کسی اور شہری سے چھینے گئے تھے، میں نے اپنا فون لیا اور باقی دو واپس کردیے۔ ایک دن اور گزرا تو ایس ایس پی عرفان بلوچ کا فون آیا کہ وہ دونوں بندے جو ہم نے بٹھائے ہوئے ہیں ان کے لیے ایک مذہبی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم کا عہدیدار بار بار تھانے آرہا ہے اور مطالبہ کررہا ہے کہ انہیں چھوڑا جائے ورنہ تھانے کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔ میں نے عرفان بلوچ سے کہا کہ ایف آئی آر میں ان دونوں کی گرفتاری ڈال دی جائے اور پولیس تفتیش جاری رکھے۔

چند روز گزرے تھے کہ میرے پاس تفتیشی افسر کا فون آیا اور اس نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں ملزمان کو عدالت میں شناخت کرنا چاہوں گا؟ مجھے اس کا سوال بظاہر عجیب لگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر شہری عدالتوں کے چکر اور پھر دشمنی کے خوف سے ملزمان کو شناختی پریڈ میں شناخت نہیں کرتے لیکن میں نے تفتیشی افسر سے حامی بھری اور اس کی بتائی ہوئی تاریخ پر عدالت پہنچ گیا۔

میرے عدالت پہنچنے پر تفتیشی افسر مجھے ایک سائیڈ پر لے گیا اور اس نے آہستہ سے مجھے بتایا کہ سر آپ جس شخص کو شناخت کرنے جارہے ہیں اس کا تعلق علاقہ دیر سے ہے اور یہ وہاں ایک کالعدم مذہبی جماعت کا امیر ہے۔ تفتیشی افسر اپنی دانست میں مجھے مزید کسی پریشانی سے بچانا چاہتا تھا لیکن میں نے اس کے کاندھے پر تھپکی دی اور اسے کہا کہ وہ پریشان نہ ہو میں شناختی پریڈ میں ضرور حصہ لوں گا اور میں نے ایسا ہی کیا، دونوں کو عدالت کے سامنے شناخت کیا اور عدالت نے مقدمے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دونوں ملزمان کو 3/3 سال کی سزا سنائی۔

یہ واقعہ تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ کراچی شہر میں اسٹریٹ کرائم سیاسی جماعتوں، مذہبی جماعتوں اور علاقہ غیر کی کالعدم جماعتوں کی فنڈنگ کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ میرے ساتھ ہوئے اسٹریٹ کرائم کے ایک واقعے میں تین جماعتوں کے نام آئے۔ وہ لوگ جو منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں کہیں وہ ان اسٹریٹ کرمنلز کو سپورٹ کررہے ہوتے ہیں تو کہیں مذہبی جماعتوں کے علاقائی عہدیدار ان کے نگہبان بنے ہوتے ہیں اور کہیں علاقہ غیر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے فنڈنگ کی ضرورت بھی اس شہر کراچی کے شہریوں سے اسٹریٹ کرائم کرکے پوری کی جارہی ہوتی ہے۔

صرف یہی نہیں، ایک وقت میں یہ کرائم اس شہر کی حد بندی کیلئے بھی استعمال ہوتا تھا۔ شاید کچھ لوگوں کے لیے یہ نئی بات ہو لیکن 2010 کی دہائی میں یہ کیسے ہوتا تھا اس وقت فیلڈ میں کام کرنے والے کئی پولیس افسر اور صحافی اس سے بخوبی واقف ہیں۔

میں اس کی مثال اس طرح دے سکتا ہوں کہ سہراب گوٹھ اور فیڈرل بی ایریا کی درمیانی شاہراہ عبور کرکے اگر  پینٹ شرٹ میں ملبوس کوئی شخص سہراب گوٹھ کی طرف چلا جاتا تو اسے صرف اس لیے لوٹ لیا جاتا کہ وہ آئندہ اس طرف آنے کی کوشش نہ کرے اور یہی شلوار قمیص پہنے اس شخص کے ساتھ ہوتا جو یہ شاہراہ عبور کرکے فیڈرل بی ایریا کی طرف آجاتا اور ایسا صرف اس علاقے میں نہیں ہوتا تھا شہر کے کئی علاقوں کی حد بندیاں اسی اسٹریٹ کرائم نے طے کررکھی تھیں۔ سیاسی جماعتیں اسے ایک ٹول کے طور پر استعمال کررہی تھیں لیکن آج کا اسٹریٹ کرائم بہت مختلف ہوگیا ہے۔

اپنی اگلی تحریر میں، میں اس کے گراف کے مسلسل اوپر جانے، اسٹریٹ کرمنلز کے نت نئے طریقہ کار، ان کی دیدہ دلیری اور پولیس کی ناکامی کی وجوہات بیان کروں گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔