Time 12 نومبر ، 2022
پاکستان

آئیڈیاز 2022 اور سخت حساب

فوٹو:فائل
فوٹو:فائل

میرے ایک دوست کا بیٹا ابلاغ عامہ کا طالبعلم تھا اور مستقبل میں صحافی بننا چاہتا تھا، کچھ عرصہ پہلے جب میں اس سے دوبارہ ملا تو اس نے بتایا کہ اس کا ارادہ تبدیل ہوگیا ہے، میں نے اس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا تو اس کا جواب تھا 'صحافی کو یوم حشر بہت سخت حساب دینا پڑے گا'۔

پاکستان میں آئیڈیاز 2022 ہونے جا رہی ہے، یہ دفاعی صنعت کے شعبے میں اس کا 11 واں ایڈیشن ہے، گزشتہ دنوں اس سلسلے میں ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد عارف ملک کی جانب سے ایک دعوت نامہ ملا جو آئیڈیاز 2022 کے حوالے سے ایک میڈیا بریفنگ کے سلسلے میں تھا۔

میڈیا انڈسٹری سے چنیدہ لوگ ڈیفنس انڈسٹری کی اس دعوت پر پہنچے جہاں پہلے ڈی جی میجر جنرل محمد عارف ملک نے کچھ گفتگو کی اور پھر ایک پریزنٹیشن پیش کی گئی، اس کے بعد مرحلہ آیا سوال وجواب کا، ابھی چند سوالوں کے بعد راقم الحروف کی باری آئی ہی تھی کہ ایک آواز آئی کہ یہ آخری سوال ہے۔

ہم نے بھی سوال آخر کیا اور جواب آخر پاکر اٹھ گئے۔

جواب کے ایک حصے سے ہی اس تحریر کا آغاز کیا ہے، اپنا سوال بعد میں بتاؤں گا پہلے آئیڈیاز کے حوالے سے کچھ باتیں ہو جائیں۔

آئیڈیاز 2022 کا رواں سال انعقاد اس حوالے سے اہم ہے کہ لاکھوں جانوں کی قربانیوں، ہزاروں عصمتوں کی پامالی اور لاکھوں افراد کی ہجرت پر منتج ہونے والا ملک پاکستان اس سال 75 برس کا ہوگیا ہے۔ قوم سال 2022 کو اپنی 75 ویں سالگرہ کے طور پر منارہی ہے اور آئیڈیاز 2022 کو بھی اسی سے نسبت دی گئی ہے۔ 

یہ نمائش 15 تا 18 نومبر ایکسپو سینٹر کراچی میں ہوگی، نئی صدی کے آغاز پر ہونے والی پہلی نمائش کے بعد سے اب یہ پاکستان کی ایک شناخت بن چکی ہے، دنیا بھر سے مختلف ممالک اس نمائش میں شرکت کرتے ہیں اور اپنی دفاعی مصنوعات کی نمائش کرتے ہیں۔

گزشتہ یعنی 10 ویں ایڈیشن میں ترکیہ، چین اور  روس جیسے ممالک نے آئیڈیاز میں اپنے خصوصی پویلین قائم کیے تھے۔کہا جارہا ہے کہ اس بار ایسے پویلینز کی تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے، یورپی ممالک رومانیہ اور آسٹریا سمیت 106 ممالک کی 345 سے زائد اہم شخصیات اور اعلیٰ سطح کے مندوبین کو بھی اس سال مدعو کیا گیا ہے۔

دفاعی ساز و سامان کی اس نمائش میں پاکستان کے دوست ممالک بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس سے ایک طرف وہ پاکستان کی دفاعی خود انحصاری میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں تو دوسری طرف انہیں اپنی دفاعی صلاحیت دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ پاکستان کے قومی ادارے ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ، پاکستان آرڈیننس فیکٹری، کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن، گلوبل انڈسٹریل ڈیفنس سلوشنز بھی اپنی مصنوعات کی نمائش کر کے عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں۔

 اعداد و شمار تک تو رسائی نہیں لیکن بتایا یہی جاتا ہے کہ آئیڈیاز کے نتیجے میں دنیا بھر سے پاکستان کو اچھے آرڈرز موصول ہوتے ہیں جس سے پاکستانی معیشت کو بھی عمدہ سہارا ملتا ہے۔

اس نمائش سے پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کو بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے جس کے لیے وہ ناصرف نمائش میں اپنے خصوصی اسٹالز لگاتی ہیں بلکہ ہر نمائش کے دوران کراچی کے ساحل پر ایک ائیر شو کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جسے دیکھنے کے لیے کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد ساحل کا رخ کرتی ہے، اس سال یہ ائیر شو 17 نومبر کو ہونے جا رہا ہے۔

آئیڈیاز 2022 کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ اپنی جانب متوجہ کیا ہے وہ ہے اس بار نمائش کے دوران ہونے والا دو روزہ سیمینار جس کا موضوع ہے 'آرٹیفیشل انٹیلی جنس'۔ آئیڈیاز کے دوران ہونے والے اس سیمینار کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس سیمینار میں ناصرف پاکستانی بلکہ عالمی ماہرین بھی 'مصنوعی ذہانت ' کے حوالے سے اپنے پیپرز  پڑھیں گے اور پاکستانی طلبہ کو اس سیمینار میں شرکت کرکے اس فیوچر ورلڈ کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس آج ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے، ہمارے اردگرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو اس مصنوعی ذہانت کے مرہون منت ہے لیکن مارچ 2018 میں انتقال کر جانے والے گزشتہ صدی کے آئن اسٹائن، مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اس کے تھوڑے مخالف تھے، تھیوریٹیکل فزکس کے اس عظیم سائنسدان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی خود میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح یہ انسانی ذہانت سے بازی لے جا سکتی ہے، ایسا کرنا انسانی نسل کے خاتمے پر منتج ہو سکتا ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ سمجھتے تھے کہ انسان نے ایک بار مصنوعی ذہانت تشکیل دے لی تو پھر وہ خود بخود اپنے آپ میں بہتری لاتی جائے گی، خود کو زیادہ تیز رفتاری سے ری ڈیزائن کرے گی اور  انسان کا آگے بڑھنے کا عمل چونکہ قدرتی طور پر سست ہے تو وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ 

اسٹیفن ہاکنگ کی اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ دفاعی شعبے میں کتنا اہم ہے، اسے آج دنیا بخوبی ناصرف سمجھ چکی ہے بلکہ اس پر اتنا زیادہ کام ہو رہا ہے کہ آنے والے کل میں شاید پوری دنیا کو ہی اپنی افواج کی افرادی قوت سے زیادہ مصنوعی ذہانت کے حامل دفاعی ساز و سامان پر  انحصار بڑھانا ہوگا۔ 

پاکستان بھی یقیناً اس پر کام کر رہا ہے اور جب اس حوالے سے ڈی جی ڈیپو سے جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا لیکن یہ بتانے سے گریز کیا کہ پاکستانی اسٹالز پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے متعلق کون سی نئی پراڈکٹس متعارف کرائی جانے والی ہیں۔

پاکستان میں ان دنوں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ایک حصے پر کافی کام ہو رہا ہے اور وہ ہے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی جس کی مدد سے جعلی تصاویر یا ویڈیوز تیار کی جاتی ہیں، ڈیپ فیک کا لفظ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ڈیپ لرننگ پروگرام سے ہی لیا گیا ہے جس کا مطلب ایک ایسی ٹیکنالوجی جو پوری طرح نقلی ہو لیکن اتنی ڈیپ ہو کہ اسے پہچانا نہ جا سکے، یہ ٹیکنالوجی اتنی خطرناک ہے کہ جتنی دیر میں اس کی مدد سے تیار تصاویر یا ویڈیوز کے جعلی ہونے کا پتہ چلتا ہے کافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔

آئیڈیاز سے ایک طرف ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ممکن ہے تو دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور  یہی آئیڈیاز 2022 کے بھی دو بڑے ٹارگٹ ہیں۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تقریباً ہر شعبے میں ہی اپنی صلاحیتوں کے جوہر منوا رہا ہے اور دنیا ہماری معترف بھی ہے، پاکستان کا امیج ایک پروگریسیو، ترقی کی جانب گامزن اور برداشت کی پالیسی رکھنے والے ملک کا ہو گا تو یقیناً دنیا ہم سے اپنے روابط بڑھانے میں زیادہ دلچسپی لے گی اور اس کا اثر ناصرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا پر بھی مثبت پڑے گا۔

اب واپس آتے ہیں اس جواب کی جانب جس سے اس تحریر کا آغاز کیا تھا لیکن اس سے پہلے راقم الحروف کا سوال 'ڈی جی ڈیپو میجر جنرل محمد عارف ملک سے پوچھا گیا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی تناؤ ہے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی باتیں ہورہی ہیں جڑواں شہروں میں مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے، ایسے میں آئیڈیاز 2022 میں شرکت کے لیے آنے والے غیر ملکی مندوبین جب اسلام آباد اتریں گے تو ان پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ آئیڈیاز  2022 کے ذریعے پاکستان کے مثبت امیج کو پوری دنیا تک پہنچانے میں مدد ملنے کی بجائے الٹا نقصان ہو جائے؟'

ڈی جی ڈیپو نے اس کا کافی مفصل جواب دیا لیکن اس کا نچوڑ  یہی تھا کہ پاکستان کی ترقی میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہے اور آئیڈیاز 2022 کے موقع پر اب یہ پاکستانی میڈیا پر ہے کہ وہ کیا دکھاتا ہے اور کیا نہیں دکھاتا، میڈیا چاہے تو چار دن کسی کو نہ دکھائے تو وہ خود ختم ہو جائے گا انہوں نے اسی بیانیے پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے دوست کے بیٹے کی مثال بھی دی جس کا کہنا تھا کہ صحافی کا یوم حشر بہت سخت حساب ہوگا اور اسی سخت حساب کے ڈر سے اس نے صحافت میں آنے کا فیصلہ تبدیل کرلیا۔

بطور صحافی میں ڈی جی ڈیپو کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بطور صحافی یقیناً یوم حشر خدا ہم سے سخت حساب لے گا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم یہاں بھی کچھ کم سختی سے نہیں گزر رہے، حساب تو ہمیں یہاں زمینی خداوں کو بھی سخت ہی دینا پڑ رہا ہے اور  وہ بھی روزانہ کی بنیادوں پر۔

مزید خبریں :