19 نومبر ، 2022
کراچی: سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کے لیے عدالتی عملہ اسلامیہ کالج کی عمارت خالی کرانے کے لیے بھاری نفری کے ساتھ پہنچا۔
عدالتی عملہ پولیس کے ہمراہ اسلامیہ کالج پہنچا تو طلبہ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور مزاحمت دکھائی گئی، پولیس کی جانب سے طلبا کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا اور واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اسلامیہ کالج پرائیویٹ پراپرٹی پر قائم ہے، ہم عدالتی بیلف کو سپورٹ کرنے کے لیے پہنچے ہیں، کالج کا قبضہ، کیس جیتنے والے ٹرسٹیز کے حوالے کیا جائے گا۔
اسلامیہ کالج کے باہر مظاہرین کو پولیس نے منشتر کر دیا اور پولیس کا کہنا ہے کہ دو سے تین طلبہ کو حراست میں لےکر تھانے منتقل کیا گیا ہے۔
پولیس اور عدالتی عملہ اسلامیہ کالج کے اندر موجود ہے اور انتظامیہ سے بات چیت جاری ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کے تحت کالج اور زمین تحویل میں لی گئی تھی لیکن درخواست گزار مرید علی شاہ نے تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن پالیسی ختم ہونے پر 22 سال پہلے عدالت سے رجوع کیا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا نیشنلائزیشن پالیسی ختم ہونے کے بعد کالج کی عمارت اور زمین واپس دلائی جائے، جس پر 2018 میں رینٹ کنٹرولر نے عمارت خالی کرانے کے احکامات جاری کیے اور پھر سندھ ہائیکورٹ نے رینٹ کنٹرول کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
حکومت سندھ اور اساتذہ نے فیصلےکو 2019 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ نے بھی رینٹ کنٹرولر کا فیصلہ برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ نے 2019 میں حکومت سندھ اور کالج انتظامیہ سے قبضہ خالی کرانے کا حکم دیا تھا، حکومت سندھ نے مزید قانونی کارروائی کی تاہم اکتوبر 2022 میں تمام قانونی معاملات نمٹا دیے گئے۔
اسلامیہ کالج کے احاطےمیں 4کالج اور 3 اسکولوں کی عمارتیں ہیں، 10 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔