08 دسمبر ، 2012
کراچی ..... بھارت سے تشریف لائے ہوئے ممتاز ادیب، دانشور پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا ہے کہ میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے،وہ ن م راشد اور فیض احمد فیض سے بھی پوری طرح آگاہ تھے، انہیں مشرق اور مغرب میں یکساں مقبولیت حاصل تھی ، میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ مرحلہ ہے اور میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ سنجیدہ شاعر تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز اپنا مکالہ "میرا جی۔مشرق و مغرب کا نقاد" پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیض اور میرا جی کی شاعری اس دور کے سماجی، معاشرتی اور روحانی زندگی کے ہر رخ کو دکھاتی ہے ، ان تینوں میں سے کسی کو بھی ہٹا کر نہیں دیکھا جا سکتا ، ان میں سے ہر ایک نے زندگی اور وقت کے بھید کو اپنے اپنے انداز میں دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ میر اجی نے سر پر منڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا، ن م راشد کے نزدیک۔ میرا جی ان کے معا صرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے، میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے، وہ چاہتے تھے کہ زندگی چاہے زندگی نہ بنے لیکن افسانہ ضرور بن جائے گی، کئی معلومات میں میرا جی کی شاعری کو ٹیگور کے برابر قرار دیاجا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فکری طور پر میرا جی کی نثر بھی سب سے مختلف تھی، میرا جی معلوم سے زیادہ نا معلوم کے سفر پر چلنا پسند کرتے تھے۔ معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے موضوع "میرا جی آج" میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد مقبول ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے اپنے موضوع "میرا جی کے تراجم" میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کی شاعری کے جہاں کی مکمل طور پر سیر کرسکے، میرا جی نے حلقہ ارباب ذوق کی مزاج سازی کی مسکن حلقہ ارباب ذوق نے ان کی خدمات کا بھر پور اعتراف نہیں کیا، میرا جی نے نئی شاعری کی ابتداء کی اسی طرح نثر اور ترجمہ نگاری کو نظر انداز کیا گیا۔ ممتاز شاعرہ ڈاکٹرپرفیسر شاہدہ حسن نے اپنے موضوع "میرا جی کی گیت نگاری"میں کہا کہ ان کا شعری دراصل اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے، انہوں نے شعر ِ ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی، میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراوٴ دراصل اس دور کا احتجاج تھا، گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی، آواز سروں میں ڈھلی، بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔ ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنے موضوع "میرا جی کی جمالیات"میں اظہار خیال کیا کہ فرانسیسی مصنف ژولیان نے اردو میں کتاب لکھی۔ ژولیان نے منٹو کے مضمون" 3گولے" کا حوالہ دیا۔ منٹو کی بات "اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لئے اور پیچیدہ ہوگئی"۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا جی کی شاعری بہت ذہین اور اعلیٰ ذوق کے افراد سمجھ سکتے ہیں لیکن اس کے درمیان اس کی شخصیت اور "تین گولے آجاتے ہیں "۔ منٹو کہتے ہیں حسن، عشق اور موت کے درمیان میر اجی کا رخ نوکیل نہیں تھا بلکہ زندگی اور موت کا لباس تھا اور دونوں سروں کو تھامے ہوئے تھا۔ منٹو کہتے ہیں کہ مجھے میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اور سوقیت دکھائی نہیں دیتی، اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آئی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔ آخر میں صدرمحفل ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت زیادہ جاننا چاہتے ہیں تو " اخترالایمان کی یاد داشتیں" ضرور پڑھ لیں جو ان کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے انجام دیئے۔