08 دسمبر ، 2012
کراچی … پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دو سرے روز معروف ادیب ڈاکٹر مبارک علی کے اعزاز میں آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے اعتراف کمال اور ان کی 3کتابوں ”تاریخ کی باتیں اور پاکستانی معاشرہ“ کے اجراء کی تقریب کا انعقاد کیا گیا اور ڈاکٹر مبارک علی کو آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے اعزازی ممبر شپ اور شیلڈ بھی پیش کی گئی۔ آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے کہا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جو بادشاہ کا کلچر ہے وہ ہی عوام کا کلچر ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے برسوں پرانی تاریخ کو ایک کتاب میں محفوظ کر کے آنے والی نسلوں کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں جس کا بدل ممکن نہیں ،ہم سے جو ہو سکا ہم نے ان کیلئے تقریب سجائی اور ہم اپنی روایت کو آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ریاض شیخ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں میں بڑے ہیرو نظر نہیں آتے بلکہ عام عوام دکھائی دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر جعفر نے کہا کہ عام لوگ سماج کے انجن کو ایندھن فراہم کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب ایک تاریخ دان ہیں جو لوگوں کو جگانے میں مصروف اور3 عشروں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں تک ان کی کتابیں پہنچ چکی ہیں، وہ 70سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے صرف ماضی میں ہی نہیں بلکہ تاریخی فلسفے پر بھی کام کیا ہے، وہ اوس میں لپٹے لوگوں کو جوش دلانے کا کام کرتے ہیں اور مشکل ترین باتوں کو بہت آسان الفاظ میں کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے محلاتی سازشوں کے بجائے نجی زندگیوں پر کتابیں لکھی ہیں، وہ تاریخ کو اپنے رجحانات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تسنیم صدیقی نے ان کی کتاب پاکستانی معاشرے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ سماجی علوم اور تاریخ کو پڑھانا ہی بند کر دیا گیا ہے ۔ اور جہاں تاریخ پڑھائی جاتی ہے تو وہ اپنے مرضی سے شروع کر دیتے ہیں اور اپنے نظریات سے تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں پاکستانی معاشرے کے مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں دانشور طبقہ عصری مسائل سے دور رہتا ہو اور ایک طبقہ مفاد پرست ہے جو سرگرم رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ہماری ریاست میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے جو تشویشناک امر ہے۔ ڈاکٹر مبارک نے کہا کہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جن کا اعتراف کم کیا جاتا ہے۔ میں آرٹس کونسل کراچی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری کاوشوں کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا اور حاضرین کا بھی شکر گزار ہوں کہ طویل ترین سیشن کو سنا اور اردو عالمی کانفرنس کو کامیاب بنانے میں حاضرین کا کردار بھی اہم ہے۔ موجودہ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر توصیف نے انجام دیئے۔