پاکستان
08 دسمبر ، 2012

اہل قلم انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کریں،اردو کانفرنس کے شرکاء

اہل قلم انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کریں،اردو کانفرنس کے شرکاء

کراچی…اختر علی اختر…جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لئے اہل قلم اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اہل قلم اور دانش ور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کریں، وہ ایک دوسرے کے جذبات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں، اہل قلم ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کیلئے مستحکم اور مضبوط ثقافتی روابط اختیار کریں۔ فن کار و موسیقار ان لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں۔ اس سلسلے میں دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پینل کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر اہل قلم اپنا مضبوط اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کیلئے بھی مناسب ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ مجموعی تا ثر پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز پہلے سیشن با عنوان ”جنوبی ایشیا-پائیدار علاقائی امن اور تخلیق کاروں کا کردار“کی گفتگو سے سامنے آیا۔ اس نشست کے شرکا میں ڈاکٹر شمیم حنفی، انتظار حسین، ارشد محمود، غازی صلاح الدین، وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر جعفر احمد شامل تھے۔ بھارت کے ممتاز دانشور اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا کہ ہمارا حال مختلف خانوں میں بٹا ہوا ہے، اس طرح ہماری تاریخ بھی خانوں میں بٹی ہوئی ہے،ہمیں یاد رکھنا چاہئے تاریخ میں کچھ سبق ہوتے ہیں جنہیں یاد رکھنا چاہئے اور کچھ کو بھول جانا چاہئے۔ جہاں تک ہماری اجتماعی زندگی کاتعلق ہے اس کے پیش نظر ہمیں اپنی وراثت کی تعریف کو یقین کرنا ہے۔جذباتیت سے بچنا چاہئے اور کچھ کو بھول جانا چاہئے۔ایک ہندوستانی ہونے کے ناتے میرے ساتھیوں میں بہت سی چیزیں مشترک نہیں ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ہمارے ہاں ہندی اور انگریزی پر ایک روشن خیال طبقہ موجود ہے۔ اردو میں رواداری اور روشن خیالی مضبوط روایت ہے۔ ہمیں اپنی جدوجہد اس سطح پر جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔میرے لئے تو سیاست کا میدان اجنبی بستی ہے سیاست کے مسائل میری سمجھ میں نہیں آتے البتہ تہذیبی اعتبار سے جو صورت حال ہے اس پر کبھی سوچتا ہوں تو کسی مصنف کا معروف قول یاد آتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مغلوں نے ہندوستان کو تین تحفے دےئے۔اردو زبان، تاج محل اور دیوان غالب جو ہمارا تہذیبی ورثہ ہے۔ اس کی قدروقیمت اور اہمیت کا احساس جتنا اجاگر کرسکیں اچھی بات ہوگی۔ اور انہیں عام کرنے کا مستحکم طریقہ تو ہمارے پاس ہے وہ ادب اور آرٹ ہے۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے معاشرے کا جائزہ کیا جائے ،ہمارے بہت سے امتیازات رہے ہیں وہ دوسروں نے بھی فراموش کر دیا ہے بلکہ مسلمانوں نے بھی فراموش کر دیا ہے موسیقی اور ادب ہے۔ مولوی عبدالحق کے ایک جملے کہ پاکستان جناح نے بنوایا سے اردو زبان میں غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس غلط فہمی کے باعث ایک طبقہ ایسا پیدا ہو اجو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار اردو کو گرداننے لگے۔ ہمیں اس طرز فکر کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔اردو زبان میں جوبنیادی رواداری اور خوشحالی ملتی ہے اس پر ہمیں اسرار کرنا چاہئے۔ علاقائی زبانوں سے اردوکابہت گہرا رشتہ ہے۔ ہندوستان میں اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں مثلاً ممتازلکھنے والوں میں پریم چند نمایاں ہیں۔ بد قسمتی سے جب ہم مسلمان اردو زبان پر سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف شمالی بھارت آتا ہے۔ہم جنوبی ہندوستان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دیوان غالب کا ترجمہ سنسکرت زبان اور دیگر زبانوں میں ا ب ہو چکا ہے۔ ہم اپنی دنیا کو جتنا تنگ سمجھتے ہیں اتنی نہیں ہے، اس کے بہت سے دروازے اور راستے ہیں۔نئی صورتحال میں ہم کو مصوری، موسیقی میں ملتی ہے جہاں کلاسیکی گانے ساز بجانے والوں میں صف اول کے کتنے نام ہیں، استاد امیر علی خان سے لے کر موجودہ دور تک سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ استاد اکبر خان اسی طرح ساز بجانے والے اور مصور میں ممتاز صاحب موجود ہیں ۔ اردو نے دونوں ممالک کے درمیان راہ ہموار کی ہے تاہم کچھ لوگ اس راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان کو روکنا ہوگا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان امن اور آشتی کی فضا پروان چڑھ سکے۔ برصغیر میں 1000سال گزارے ہیں دوستی اور دشمنی کے دور بھی گزرے، میں ان دونوں ممالک کے درمیان بہہ رہا ہوں،مجھے ڈاکٹر ذاکر حسین کا ایک فقرہ یاد آگیا ”ہندوستان کی تہذیب میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا ہے ،وہ دو چیزیں ہیں ایک تاج محل اور ایک اردو زبان ہے“۔

مزید خبریں :