پاکستان
09 دسمبر ، 2012

پاکستان میں بیشتر ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ادا نہیں کرتے، برطانوی جریدہ

 پاکستان میں بیشتر ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ادا نہیں کرتے، برطانوی جریدہ

کراچی… محمد رفیق مانگٹ…برطانوی جریدہ ”اکانومسٹ“ لکھتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکسکا نظام تباہ ہو چکا ہے، اکثر ارکان پارلیمنٹ جن میں اکثریت امیر ہیں، ٹیکس ریٹرن فائل ہی نہیں کرتے،کم تر ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح ایک جوہری ملک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے،پاکستان کی ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ۔ٹیکس جی ڈی پی شرح پاکستان سے زیادہ فلپائن اور ایتھوپیا میں ہے۔ ٹیکس نہ دینے والے 30لاکھ افراد کو چند روز میں نوٹس جاری کیے جائیں گے، ٹیکس ادئیگی کیلئے 75دن کی مہلت، ورنہ سزا ہوگی۔ایف بی آر کے مطابق شادی شدہ کنوارے سے امیر، دو بیویوں کا حامل مزید امیر،جب کہ چار بیویوں والا شوہر غریب ہو تا ہے۔حکومت متنازع ایمنسٹی بل لانے پر غور کررہی ہے ، صرف 40ہزار روپے کی ادائیگی سے کالا دھن سفید ہوجائے گا۔ خوشامدی بزنس مین،ٹیکس چھپانے والے پیپلز پارٹی کے حامی اس اسکیم سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔ ایف بی آر بورڈ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ریگولیٹری آرڈر جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔جریدے کے مطابق پاکستان میں ٹیکس نہ دینے کا وطیرہ اور دھوکا دہی حکام بالا سے جاری ہے ۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل لابی، دولت مندشہری بابوکلاس،تاجر، زمیندار سمیت ملک کا صاحب ثروت طبقہ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتا ہے ۔پاکستان کی ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ۔جریدے نے ایف بی آر حکا م کے حوالے سے لکھا کہ 17سو ایسے اشاریے ہیں جن سے کسی شخص کے دولت مند ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،ان میں غیر ملکی سفر، گھر کی ملکیت، پوش علاقوں میں رہائش،کار یا اسی بڑی خریداریاں، لائسنس یافتہ اسلحہ جیسے اشاریے اس کے دولت مند ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ پاکستانی ٹیکس حکام نے نشاندہی کی ہے کہ صرف سات لاکھ 68ہزار افراد نے گزشتہ برس انکم ٹیکس اداکیا۔ گزشتہ تین برسوں میں ہر سال 2لاکھ70ہزار افراد نے کچھ نہ کچھ ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح صرف 9.1فیصد ہے جو کہ دنیا میں کم ترین شرح ہے ،جنوبی افریقا کی ٹیکس ٹو جی ڈپی شرح26 فیصد،ترکی کی21فیصد ،بھارت کی 16فیصد، تھائی لینڈ کی 16فیصد، مصر کی 14فیصد فلپائن کی 12فیصدایتھوپیاکی 10فیصد اور افغانستان کی 9فی صد ہے۔ پاکستان میں مئی میں متوقع عام انتخابات سے قبل آصف علی زرداری کی حکومت ٹیکس ایمنسٹی کا ایک متنازع حل لانا چاہتی ہے جس میں کالا دھن کمانے والوں کے لئے معافی دی جائے گی ، صرف 40ہزار روپے(4سو ڈالر) ادا کر کے اپنا کالا دھن سفید کراسکیں گے۔ حکومت ٹیکس دھارے میں وسعت لانے کا فوری طریقہ قرار دے رہی ہے۔یہ تجویز بنیادی طور پر ایف بی آر کے سربراہ علی حکیم کی اختراع ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس انسپکٹروں کو رشوت دے کر ٹیکس بچا لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نظام کو کمپیوٹر ائز کررہے ہیں ۔ایف بی آر کے سربراہ نے تسلیم کیا کہ ان کا ٹیکس نظام انتہائی فرسود ہ ہے۔اسی وجہ سے ایمنسٹی کی پیش کش کی گئی،ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے خوشامدی بزنس مین فائدہ اٹھائیں گے یا گزشتہ چار سال میں پیپلز پارٹی کے حامی جنہوں نے ٹیکس چھپایا وہ اس اسکیم سے ناجائز فائدہ لے جائیں گے۔ ایف بی آر بورڈ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ریگولیٹری آرڈر کے تحت کئی اشیاء کو ٹیکس سے استشناء دے سکتا ہے اسی طرح کا آرڈر ماضی میں اپریل 2011میں جاری کر کے 184اشیاء پر سیلز ٹیکس ختم کردیا تھا۔جریدہ لکھتا ہے کہپاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے متحد ہونے پرضرو دیا تھا اور انہیں ایک قومیت کا احساس دلایا انہوں نے کہاتھا کہ اتحاد سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر ہواوٴں میں اڑ سکتے ہیں تاہم شاعری اور ٹیکس یکجا نہیں چل سکتے ۔پاکستان کا ٹیکس ریونیو اتنا بدحال ہو چکا کہ غیر ملکی امداد کے بغیر ملکی قرض کو برقرار رکھنا یقینی مشکل ہے۔

مزید خبریں :