بلاگ
Time 08 جنوری ، 2023

ایم کیو ایم کا مستقبل؟

جس قیمت پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کندھا دیےساڑھے تین سال کھڑی رہی ، اب یہی ایم کیو ایم پاکستان ن لیگ کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت کو اس سے بھی کم قیمت پرسہارا فراہم کیے کھڑی ہے ،یہ جماعت پہلے ساڑھے تین سال اپنے صوبے میں اپوزیشن میں رہنے کے سبب نہ ہی اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کیلئے کچھ کرسکی اور نہ ہی پہلے عمران خان اور اب شہباز شریف کے وعدوں کے باوجود کراچی میں اپنے کھوئے ہوئے دفاتر حاصل کرسکی۔

 ایم کیو ایم پاکستان نے عمران خان کی حکومت کے دوران وفاق میں اتحادی اور صوبے میں اپوزیشن میں ہونے کے سبب پیپلز پارٹی کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا لہٰذا اپنے کارکنوں اور ووٹروں کے مسائل حل نہ کرسکی جس سے بلاشبہ کراچی شہر میں ایم کیو ایم پاکستان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی جب کہ پی ڈی ایم میں شامل ہوکر ن لیگ کی حکومت کے قیام میں مدد دے کر ایک بار پھر وفاق میں چند وزارتیں تو حاصل کرلیں لیکن صوبے میں تاحال ایم کیو ایم پاکستان اپوزیشن جماعت ہی سمجھی جارہی ہے ، پی ڈی ایم حکومت کے قیام کے وقت اس کے ساتھ جو وعدے کیے گئے۔ پیپلز پارٹی نے وہ وعدے کراچی میں وفا نہیں کیے، یعنی وعدوں کے باوجود نہ اسے سندھ حکومت میں شامل کیا گیا اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندیوں کو تبدیل کیا گیا، غرض ایم کیو ایم پاکستان کیلئے حالات پہلے سے بھی زیادہ مشکل اس لیے ہیں کہ اپنے مرکز کراچی میں یہ جماعت سکڑتی جارہی ہے۔

 ایسے میں بھلا ہو گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا جنہوں نے مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار کو اپنی کوششوں سے ایم کیو ایم پاکستان میں واپس لانے میں کردار ادا کیا اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں متحدہ کو یکجا کرنے کی کوششوں کو حتمی شکل تک پہنچایا، تاہم اب بھی اسے عوامی طاقت دلانے کیلئے اس کے سائیڈ لائن کیے گئے طاقتور رہنماؤں جن میں حیدر عباس رضوی، رؤف صدیقی، بابر غوری جیسے ریاست کی مرکزیت پر یقین رکھنے والے رہنماؤں کو پارٹی میں متحرک کرنا ضروری ہے ورنہ جس تیزی سے جماعت اسلامی کراچی کے شہریوں کے حقوق کی طلبی کا بیانیہ لیکر آگے بڑھ رہی ہے اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کراچی کے عوام اور کاروباری طبقہ اب اپنے مسائل کے حل کیلئے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پر بھروسہ کررہا ہے جس کا ثبوت رائے عامہ کے جائزوں میں بھی نظر آرہا ہے، جس میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم بہت ساری سیاسی جماعتوں سے کافی آگے نظر آرہے ہیں۔

 ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنی پریس کانفرنس میں بلدیاتی انتخابات وقت پر کرانے، حلقہ بندیاں ٹھیک کرنے اور کراچی کے حقوق کی جو بات کی ہے وہ اپنی جگہ ٹھیک ضرور ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ پیپلز پارٹی ایک ایسی حکمران جماعت ہے جو پچھلی تین حکومتوں سے سندھ میں اقتدار میں ہے اور حال ہی میں کراچی میں عمران خان کو بھی شکست دے چکی ہے، سعید غنی کراچی سے صوبائی نشست حاصل کرچکے ہیں لہٰذا ان کی خواہش ہوگی اُن کی جماعت کراچی سے مزید نشستیں حاصل کرے اور بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے لہٰذا پیپلز پارٹی سے اتحاد کرکے ایم کیو ایم کو کراچی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ 

دوسری جانب اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے پاس عوام میں جانے کیلئے کوئی ایسا بیانیہ بھی موجود نہیں جوعوام کو متوجہ کرے، لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن بحال حاصل کرسکے گی یا پھر جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ملک کو ستر فیصد ریونیو دینے والے شہر کراچی میں اپنی جگہ مزید مضبوط کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔