اگر الیکشن ہوئے تو۔۔۔۔۔

بات جنرل الیکشن کی نہیں ہو رہی، تین بار ملتوی ہونے کے بعد بالآخر 95 فیصد امکانات کے ساتھ 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی ہو رہی ہے۔

کراچی میں گلی اور محلوں کی سطح پر الیکشن کا منڈپ سجنے والا ہے اس منڈپ سے جو جیت کر نکلا وہی کراچی کا دلہا ہوگا، وہ کون ہوسکتا ہے اس کا سرکاری جواب تو 15 جنوری کو ہی ملے گا لیکن غیرسرکاری جواب ضرور تلاش کیا جاسکتا ہے۔ 

سرکاری جواب سے میری مراد الیکشن کمیشن کا جاری کردہ حتمی نتیجہ ہے لیکن نجانے کیوں جب بھی بات الیکشن کی ہو تو لفظ "سرکار" سے لوگ کوئی اور ہی معنی نکلنے لگتے ہیں اور یہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے باوجود اس کے کہ برملا اور بار بار یہ کہا جاچکا ہے کہ ہم سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے "نیوٹرلز" کی یہ بات اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ کراچی کے سیاسی میدان میں ان دنوں جو کھیل تماشا جاری ہے وہ کچھ اور ہی کہہ رہا ہے۔

کراچی میں 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہیں، پہلا مرحلہ پیپلز پارٹی جیت چکی ہے اس دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور انضمام کے مسئلے سے دوچار ایم کیو ایم اس کی بڑی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ 

بلدیاتی قیادت کے حوالے سے اگر کراچی کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی وہ دو جماعتیں ہیں جنہوں نے اس شہر میں بلدیاتی قیادت سنبھالی، جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار میئر کراچی اور جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال مختلف وقتوں میں ناظم کراچی رہ چکے ہیں۔ 

یہ پرانے حریف اس بار بھی خم ٹھونک کر میدان میں ہیں لیکن اگر صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو بظاہر دونوں کے ہی دلہا بننے کا امکان کم ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم کا امکان جماعت اسلامی سے بھی کم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ انضمام کے گھوڑے پر ان کی سواری ہے یہ مردار گھوڑا انہیں انتخابی میدان سے دور بھی لے جاسکتا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ الیکشن کون جیتے گا ؟

اس پر مزید بات کرنے کیلئے ہمیں ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالنا ہوگی، اس وقت وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے، جس میں چار بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم پاکستان کا بڑا حصہ ہے۔ تحریک انصاف وفاق میں حکومت سے محروم کر دی گئی ہے، بلوچستان میں باپ کے لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں کے پی کے اور پنجاب میں گورنر راج لگانے کی باتیں ہو رہی ہے۔ 

اس منظر نامے کے مطابق تو بظاہر مستقبل میں بھی پی ٹی آئی کیلئے کوئی جگہ نظر نہیں آتی، اسٹیبلشمنٹ پر پی ٹی آئی کے حملے جاری ہیں لیکن نا تو عمران خان ، محمود غزنوی ہیں اور نا ہی اسٹیبلشمنٹ کوئی سومنات کا مندر ہے۔ پی ٹی آئی مستقبل کے منظرنامے میں اپنی جگہ چاہتی ہے لیکن دینے والے یہ جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عمران خان کا نوجوان نسل پر سحر کم تو ہوا ہے لیکن ابھی بھی اس بات کا خوف موجود ہے کہ اگر فوری الیکشن کرا دیے جائیں تو تحریک انصاف وفاق میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ اس "خوف کے مارے" جنرل الیکشن کے فوری انعقاد کے مطالبے پر کان نہیں دھر رہے اور انہوں نے اسلام آباد میں عدالتی حکم کے باوجود انتخابات نہیں کرائے لیکن پھر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کیوں ہونے جارہے ہیں؟ یہ وہ لاکھوں کا سوال ہے جس کا جواب 15 جنوری کی شام ہی ملے گا اگر الیکشن ہوگئے۔

کراچی میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت میں کتنا دم ہے یہ پچھلے چار سالوں میں کراچی والے دیکھ چکے ہیں، قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کے باوجود پی ٹی آئی کراچی میں مکمل ناکام نظر آئی۔ کراچی کے بنیادی مسائل پر پی ٹی آئی کی کارکردگی زیرو رہی عمران خان نے کراچی والوں سے وعدے تو بہت کیے لیکن وہ ڈلیور کچھ بھی نہیں کرسکے۔

کراچی آج بھی مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے، کراچی والوں کے پاس نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ سڑکیں ہیں اور نہ ہی مناسب ٹرانسپورٹ، کوئی ماسٹر پلان نہ ہونے کی وجہ سے شہر عمارتوں کا جنگل بنتا جا رہا ہے اور سیوریج کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ شہر گندے نالے کا منظر پیش کر رہا ہے، کراچی کا شاید ہی کوئی خوش نصیب شہری ہو جو اسٹریٹ کرائم کا شکار نہ ہوا ہے اور اگر ایسا کوئی ہوا تو اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ 

پی ٹی آئی کی حکومت ان تمام مسائل کو حل کرسکتی تھی کچھ کاسمیٹکس اقدامات نظر بھی آئے لیکن ان کے پیچھے نیت نظر نہیں آئی لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں ملیں گے، پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کا کراچی کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے الیکشن کوئی بھی ہوں ان کا سو فیصد انحصار عمران خان پر ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تخت سے اتار دیے جانے کے بعد توشہ خانہ اسکینڈل سے لے کر سیکس اسکینڈل تک کئی اسکینڈلز میں گھرے عمران خان آج بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ الیکشن کے نتیجے میں ان کی جماعت کچھ بھی کرسکتی ہے اس "کچھ بھی" کو روکنے کے لیے پی ٹی آئی کے سامنے ایک ایسی سیاسی قوت درکار ہے جو عوام میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہو اور یہی وجہ ہے کہ ڈھونڈنے والوں کی نظر ایم کیو ایم پر آکر ٹہری ہے لیکن دھڑوں میں بٹی ایم کیو ایم اس حوالے سے مناسب انتخاب نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے طے پایا کہ پہلے جس کھلونے کو توڑا تھا اسے ہی دوبارہ سے جوڑا جائے۔ 

کام شروع ہوا اور جو کل تک ایک دوسرے کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے تھے ملنے، بات کرنے اور جڑنے پر تیار ہوگئے لیکن متحدہ ایم کیو ایم بھی پی ٹی آئی کا راستہ روکنے میں ناکام ہوسکتی ہے اگر بلدیاتی انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں پر کرادیے جائیں یہ وہ نکتہ ہے جو نکتہ چینوں کی جبینوں کو شکن آلود کیے ہوئے ہے۔

حلقہ بندیوں میں ایسا کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے متحد بھی ہوجائیں تو بھی ناکام رہ سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق حلقہ بندیاں آبادی کی یکسانیت، تسلسل اور حلقہ بندیوں کے نتیجے میں اضلاع یا ڈویژن کی تقسیم نہ ہو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں لیکن ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے سیاسی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے حلقہ بندیاں کی ہیں جسے جیری مینڈرنگ کہتے ہیں۔

 جیری مینڈرنگ میں انتخابی حلقے ایسے قائم کیے جاتے ہیں جہاں آبادی میں یکسانیت نہ ہو، حلقے میں تسلسل کا خیال نہ رکھا گیا ہو اور انتظامی یونٹس کو تقسیم کر کے حلقے قائم کیے جائیں، اس معاملے پر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق حلقہ بندیاں تین مرحلوں میں کی جاتی ہیں کسی بھی علاقے کا دیہی یا شہری ہونے کا تعین سندھ حکومت کرتی ہے اور اس کے بعد کس حلقے میں کتنی یونین کمیٹیز یا یونین کونسل ہوں گی اس کا تعین کرنا بھی سندھ حکومت کا کام ہے، الیکشن کمیشن سب سے آخر میں حکومت کی تعین کردہ یوسیز تشکیل دیتا ہے اور آبادی کے لحاظ سے اس کی حلقہ بندی کرتا ہے۔

ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ سندھ حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حلقہ بندیاں صرف آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوتیں حالانکہ حلقہ بندیاں کرنے کا سب سے بنیادی اصول ہی حلقے کی آبادی کو مدنظر رکھنا ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حلقوں کے درمیان آبادی کے لحاظ سے صرف 10 فیصد کا فرق ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں بعض یو سیز کی آبادی 30 سے 35 ہزار اور بعض کی 90 سے 95 ہزار تک ہے۔ حلقہ بندیوں میں جیری مینڈرنگ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم کے اکثریتی علاقے ضلع وسطی کی آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 22 لاکھ 77 ہزار 931 تھی اور اس بنیاد پر یہاں 51 یوسیز تھیں۔

 2017 کی مردم شماری میں ضلع وسطی آبادی 29 لاکھ 71ہزار 382 گنی گئی یعنی 9 لاکھ زیادہ لیکن اس ضلع میں یونین کمیٹیز کی تعداد 51 سے کم کرکے 45 کردی گئی ہے اسی طرح ضلع کورنگی میں 2015 میں کل آبادی 15 لاکھ 39 ہزار 690 تھی اور یوسیز کی تعداد 37 تھی۔2017 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی میں 9 لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوگیا لیکن یوسیز کی تعداد وہی رہی اس کے برعکس اگر ضلع ملیر کا جائزہ لیا جائے جہاں سے پیپلزپارٹی ماضی میں انتخابات جیت چکی ہے تو 2015 میں اس ضلع کی کل آبادی صرف 4 لاکھ 4 ہزار501 تھی اور یہاں 13 یوسیز تھیں لیکن اب اس ضلع کی آبادی میں 14 لاکھ کا اضافہ ہوچکا ہے اور یونین کمیٹیز کی تعداد بڑھا کر 30 کی جاچکی ہے۔

کچھ ایسا ہی کراچی کے دیگر اضلاع میں بھی کیا گیا ہے، ایم کیو ایم یہ نوشتہ دیوار پڑھ چکی ہے کہ اگر ان حلقہ بندیوں کے ساتھ بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو اسے کافی سے زیادہ نقصان ہوگا اگر یوسیز کی سطح پر کسی انہونی کے نتیجے میں وہ کامیاب ہو بھی گئی تو بھی اس کے اکثریتی علاقوں میں یوسیز کی تعداد کم کرنے سے اس کے چیئرمینز کی تعداد میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ میئر کے انتخاب پر بھی اثر انداز ہوگی کیونکہ میئر کا انتخاب یوسی چیئر میننز نے کرنا ہے۔

ایم کیو ایم کی کامیابی کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ انضمام بن سکتا ہے، بلدیاتی انتخابات اب تک تین بار ملتوی کیے جاچکے ہیں لیکن الیکشن کا صرف ایک ہی مرحلہ یعنی پولنگ باقی ہے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا وقت گزر چکا ہے اور بیلٹ پیپر بھی چھپ چکے ہیں جس پر ناصرف ایم کیو ایم بلکہ پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار کے امیدواروں کے بھی نام ہوں گے صرف 3 روز بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل انضمام کی صورت میں جو تادم تحریر نہیں ہوا تھا، متحدہ ایم کیو ایم کو اپنے ووٹر کو یہ سمجھانا نہایت مشکل ہوگا کہ اسے کہاں ایم کیو ایم کے امیدوار کو اور کہاں پی ایس پی یا فاروق ستار کے امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔

 ووٹر کنفیوژ ہوگا اور اسے ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے اگر مناسب رہنمائی نہ ملی تو ووٹ تقسیم ہوکر ضائع ہوجائے گا، ایم کیو ایم اتنا وقت چاہتی ہے کہ وہ ان تمام مسائل کو حل کرسکے جو تاحال اسے ملتا نظر نہیں آرہا، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور سندھ ہائیکورٹ میں اس معاملے پر اس کی عدالتی جنگ جاری ہے۔

 سپریم کورٹ ایم کیو ایم کی درخواست پر ایک فیصلہ دے چکی ہے لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اس پر کچھوے کی رفتار سے چل رہی ہے الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات پر حکم امتناع دینے سے منع کرچکا ہے اور اس نے 15 جنوری کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے اب صرف سندھ ہائیکورٹ میں دائر حکم امتناع کی ایک درخواست باقی بچی ہے اور اس ماحول میں ہی ایم کیو ایم کے لیے ایک اور بری خبر یہ بھی ہے کہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی طرف سے کراچی اور حیدرآباد کے عوام سے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل بھی سامنے آگئی ہے۔

موجودہ صورتحال میں نظر تو یہ آرہا ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو جوڑنے کی کوشش کا کوئی حاصل حصول ممکن نہیں تو پھر پی ٹی آئی کا بلدیاتی الیکشن میں راستہ کون روکے گا تو اس کا سادا سا جواب تو یہی ہے کہ پیپلز پارٹی۔

پیپلز پارٹی سندھ میں پچھلے 14 سالوں سے مسلسل حکومت میں ہے اور اقتدار میں ہونے کے جو فوائد ضمنی یا بلدیاتی الیکشن میں کسی سیاسی جماعت کو ہوسکتے ہیں وہ تمام اسے حاصل ہیں، سب سے بڑھ کر بلدیاتی حلقہ بندیاں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ہوئی ہیں اور شہر میں انتظامی افسران اس کے تعینات کردہ ہیں۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کو بھی یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ جو ایم کیو ایم سے چاہتے ہیں وہ پیپلز پارٹی بھی انہیں کرکے دکھاسکتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کیلئے بھی یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا اسے صرف پی ٹی آئی یا ایم کیو ایم کا ہی چیلنج درپیش نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی بھی میدان میں ہے، جماعت اسلامی کا مسئلہ نظریاتی ہے اس کے جتنے لوگ کسی احتجاج یا جلسے میں سڑک پر ہوتے ہیں اتنے ہی ووٹ بیلٹ باکس سے نکلتے ہیں۔

 حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں جماعت اسلامی نے گزشتہ کچھ عرصے میں جس طرح کراچی کے مسائل پر آواز بلند کی ہے اس سے کراچی کے عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ تو ہوا ہے اور اس بات کے امکانات ہیں کہ اس بار بیلٹ باکس سے نکلنے والے ووٹوں کی تعداد احتجاج یا جلسے میں شرکت کرنے والوں سے زیادہ ہو اگر ایسا ہوتا ہے اور جماعت اسلامی کراچی سے یو سیز چیئرمین کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو شہری حکومت بنانے سے روکنے کے لیے پی ٹی آئی سے ہاتھ ملا لے اور دونوں مل کر میئر اور ڈپٹی میئر کی سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ کرلیں۔ 

دونوں ماضی میں کے پی کے میں بھی مل کر حکومت بناچکی ہیں لہٰذا ان دونوں کو ایک دوسرے کا قدرتی اتحادی کہنا غلط نہ ہوگا لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی ہار کر بھی جیت جائے گی لیکن یہ اسی وقت ہوگا اگر الیکشن ہوئے تو ۔۔۔۔

مزید خبریں :