18 جنوری ، 2023
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی خصوصی بینچ نےکی۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نےکہا کہ عدالت نے آبزرویشن دی کہ 386 کیسز میں سے کتنے اراکین پارلیمنٹ کے تھے؟ تاہم عدالت یہ بھی پوچھ سکتی تھی کہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں 5 نیب آرڈیننس لائےگئے، ان آرڈیننسز کے تحت کتنے نیب ریفرنس واپس اور افراد بری ہوئے۔
مخدوم علی خان نےکہا کہ عدالت یہ بھی پوچھےکہ تحریک انصاف کے آرڈیننسز سے بری ہونے والے ملزمان میں کون کون شامل ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم پرانے قانون کا ہی تسلسل ہے، عدالت خود کو 386 نیب کیسز تک محدود نہ رکھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ ایسا کہنا درست نہیں کہ نیب کیسز سے بری ہونے والے صاف شفاف ہوکرگھر چلے جاتے ہیں، یہ تاثر غلط ہےکہ نیب ختم ہو جانے سے قانون کی گرفت بھی ختم ہو جائےگی۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ تحریک انصاف کا موقف ہےکہ نیب کیسز میں جرم ثابت کرنےکا معیار ہی بدل دیا گیا ہے، سوال یہ بھی اہم ہےکہ نیب کیسز میں سزائیں ہونےکے بعد حالیہ ترامیم کا اطلاق ماضی سےکیسے ہوسکتا ہے،اگر احتساب عدالت جرم سے بری کر دے تو ملزم گھر ہی جائےگا۔