اب پچھتائے کیا ہوت؟

وطن عزیز میں تباہی دھاک بٹھا چکی،موجودہ اِنتشار و بحران ناقابل پلٹ ہے۔جہاں کھڑے ہیں، آٹھ سالہ محنت سے پہنچے ہیں۔ تب سے آہ و بکا ، ممکنہ خطرا ت سے آگاہ کیا، بھلا پُرعزم پلٹنے والے کیوں؟ سب صدابہ صحرا ، طالع آزما وطنی کھیت اُجاڑ چکے۔

زندگی بھر کا حاصل مطالعہ،’’ قوموں ملکوں کی بقاسیاسی استحکام سے جُڑی ‘‘۔سیاسی عدم استحکام پر بے شمار قومیں مٹ چکیں، ملک تحلیل ہو ئے۔سب جھوٹ اور دھوکہ دہی کہ’’ مملکت کو کرپشن نے تباہ کیا‘‘۔ جنہوں نے کرپشن کا جتنا شور مچایا،’’زبان خلق‘‘ بنایا ، بعد ازاں کرپشن میں بنفس نفیس گوڈے گوڈے ملوث پائے گئے۔ہزاروں سال کی’’رقم تاریخ‘‘ پھرولیں یا پچھلے تین سو سال کا جدید قومی و ملکی سسٹم دیکھیں۔

 ایک ایسا ملک بھی نہیں جو سیاسی عدم استحکام کی جکڑ میں آئے اوراپنا وجود برقرار رکھ پائے ؟کئی مستحکم نظام ہمارے سامنے !مغربی جمہوریت یا پڑوس کے خلیجی ممالک کی بادشاہتیں یا چین کادہائیوں سے قائم سوشلسٹ سسٹم یا کوریا میں پارک چنگ ہی کا 20 سالہ مطلق العنانی دور یا بھارتی ہندو جمہوریت یا ساؤتھ افریقہ اور برازیل درجنوں مثالیں سامنے ،جہاں کہیں ترقی کے در کھلے کہ سیاسی استحکام کی قدر مشترک تھی ۔مفلوک الحال ممالک میں بھی ایک قدر مشترک سیاسی عدم استحکام پر نفسا نفسی ، اُکھاڑ پچھاڑ بدرجہ اُتم موجود رہی۔

دودہائی پہلے نائجیریا اور وینزویلا تیل کی پیداوار میں دُنیا میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے۔ بھیانک معاشی ابتری اور لاقانونیت اسلئے کہ سیاسی عدم استحکام کی گرفت میں تھے۔دوسری طرف تیل کے ذخائر سے مالا مال خلیجی ممالک میں حکمرانوں اور اشرافیہ کی کرپشن اپنی مثال آپ رہی ،ملکی وسائل اور خزانے کا بڑا حصہ اپنی ذات تک محدود رکھا۔ سیاسی استحکام کی موجودگی میں کرپشن کچھ نہ بگاڑ سکی۔ کئی دہائیاں پہلے چین اور بھارت کرپشن میں پاکستان سے دس گناآگے تھے ، شاید آج بھی ہم سے آگے۔

چالیس سال سے درجنوں بار دونوں ممالک جانے کا اتفاق ہوا۔ دہائیوں کا سیاسی استحکام دونوں ملکوں کو رفعتیں دے گیا۔ تباہ حال غربت میں ڈوبا 2022 ءکاتُرکیہ یا 1982 کاملائیشیا، مہاتیر محمد اورطیب اُردوان کے 20سالہ مستحکم دور حکومت نے اپنے اپنے ملک کو ساتویں آسمان پر پہنچایا۔ دور کیوں جائیں؟ 4\5 دہائی پہلے بنگلہ دیش کے مکین جان ہتھیلی پر رکھ کر بہتر زندگی گزارنے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور تھے۔ پچھلے 14سال کا سیاسی استحکام بنگلہ دیش کی ترقی کا ضامن بن چُکا ہے۔

7 جنوری 1951 کا دن اچھا شگون بننا تھا ، بدقسمتی ! مملکت کی اُکھاڑ پچھاڑ کا کاروبار شروع کر گیا۔10 مارچ 1951کوفوجی بغاوت ناکام ضرور ہوئی۔ میجر جنرل اکبر خان اور میجر جنرل نذیرسمیت کئی حاضر اور ریٹائرڈ افسر گرفتار ہوئے۔ راولپنڈی سیشن کورٹ میں دورانِ ٹرائل جرنیلوں سے سوال:’’ آپ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ کیوں اُلٹنا چاہتے تھے‘‘ ، جواب! ’’لیاقت علی خان حکومت نااہل، کرپٹ اور بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے‘‘ ۔تف ایسی سوچ پر کہ مذموم ایجنڈے کیلئے جھوٹ اور بے شرمی میں ہر حد ٹاپ لی۔

بعد ازاں بے شمار حکومتوں کو کرپشن اور نااہلی پر گھر بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا۔ 7اکتوبر کو جنرل ایوب خان1956 کا آئین توڑ کر مملکت کے نجات دہندہ بنے۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی وجہ بتائی ۔1951 سے سیاسی عدم استحکام کا گھولا زہر جب کچھ سرایت کر گیا تو 1971 میں ملک دو لخت ہوا۔ مجرم پکڑے گئے نہ سبق سیکھا۔آج عدم استحکام کا زہر پورے جسم میں پھیل چکا ۔ 1973 میں آئین بنا ، ہر سُو خوشی کی لہر تھی۔ ساڑھے تین سال بعد ہی جنرل ضیا الحق نے آئین کو جبری رُخصت پر بھیجا۔

2014 کاتاریخ ساز سال ، آج کی بربادی کا بیج اِسی سال بُویا گیا۔’’ سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ ، کے نام پر سیاست کو زیر کرنا ، ریاست بچانا تھا۔بالآخر دونوں دفن ہونے کو ہیں۔آج کی سیاسی ابتری کے بنیادی کرداروں میں ایک صاحب کروڑ وں روپے ماہوار تنخواہ پر سعودی عرب میں خوش حال مقیم اور دوسرا کردارچھ سال مملکت کا باجہ بجانے کے بعد اربوں روپے کے اثاثوں کیساتھ دُبئی میں پُر سکون انداز میں زیبرا کراسنگ پر ٹریفک سگنل کے احترام میں کھڑاپایا گیا ہے۔

جنرل باجوہ کا جنرل یحییٰ خان سے زیادہ ہزیمت اُٹھانا بنتا ہے۔ آرمی چیف بنتے ہی گول ایک ہی، آخری سانس تک عہدہ نہیں چھوڑنا تھا ۔پہلی توسیع کی خاطر نواز شریف کا مکو ٹھپا گیا۔ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ CPEC کا ٹھپا جانا اور مملکت کا بھٹہ بیٹھنا منطقی نتیجہ تھے۔نواز شریف کو جب نااہل کیا،ظالم یہ بھول گئے کہ CPEC منصوبہ تتربتر ہو جانا ہے، پاکستان کے استحکام ، خوشحالی اور قانونیت کا موقع گنوا دیا۔ دوسری ایکسٹینشن کی دوڑ میں عمران خان حکومت کو ملیا میٹ کیا اور ساتھ ہی شہباز شریف حکومت کو پہلے بنانا اور پھر ہٹانا لازم و ملزوم قرار پائے۔ ستمبر اکتوبر میں شہباز حکومت کو مارشل لا کی دھمکی بھی پہنچائی۔

اچنبھے کی بات نہیں کہ عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے ساتھ ہی نا اہلی و کرپشن پر چارج شیٹ اور اخلاقی پستی پر آڈیولیکس لائی گئیں کہ ماضی میں بھی یہی SOPs تھے جبکہ شہبازحکومت کی پہلے دن سے ہی ساکھ مجروح رکھی ۔پراپیگنڈہ !اپنے کرپشن کیسز ختم کروارہے ہیں ، نااہلی کا شور تاکہ شہباز حکومت اقتدار سے دستبردار ہو جائے ۔ توسیع کی خاطر جہاں عمران خان کا تیا پانچہ کیا وہاں اِس حکومت کو بھی پنپنے نہیں دیا۔

دہائیوں سے خصوصاً پچھلے 8 سال سے جاری عدم استحکام آج نتائج دے رہا ہے، قوم بھگتنے کو IMF اورFATF تو ہمیشہ سے اِس دن کی تاک میں تھے کہ وطنی تابوت میں آخری کیل وہ ٹھونکیں گے ۔ کسی حال میں کرپشن کی کسی بھی جہت کوحقارت سے دیکھتا ہوں ۔ مزید برآں مقتدر طبقہ کو کرپشن کے الزامات میں بَری الذمہ نہیں سمجھتا لیکن دھوکہ دہی کی اس مد کو کہ اس ملک کی تباہ حالی یا پاکستان ٹوٹنا یا آج پاکستان کا بستر مَرگ پر ہونااِس کی وجہ کرپشن ہے، ایسے بازی گر ہی تو میرے اصل مجرم ہیں۔

اپنے کرتوتوں سے توجہ ہٹانے کیلئے ناٹک رچاتے ہیں ۔دو رائے نہیں کہ سیاسی عدم استحکام ہی نے تو ملک کو ہلکان کیا ہے۔ آئین اورقانون کی دھجیاں اُڑانے والے کو دُبئی میں زبیرا کراسنگ پر ٹریفک کی پابندی کرتے دیکھا تو اچھا لگا۔ قطع نظر کہ مملکت کا مستقبل کیا رہنا ہے،بعد از خرابی ہمیں باور یہی کرایا جائے گا کہ’’ سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی نے مملکت کو اِس مقام تک پہنچایا‘‘ سر تسلیم خم، انا للہ و انا الیہ راجعون۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔