پاکستان اور اس کا بدقسمت نوجوان

پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر مایوسی کے ساتھ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کی خاطر ملک کو اس نہج پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ آئے دن اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ کہیں  ملک سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کر گام تو کیا ہوگا مگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے اوپر اپنی نااہلی کا ملبہ ڈالنے پر مصروف ہیں ۔ 

ان سیاسی جماعتوں کے لیڈرز میں کسی کو بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں بس ہر کوئی وزیراعظم کی سیٹ پر آنا چاہتا ہے تاکہ وہ مزید فرعونیت کا مظاہر ہ کر سکے۔ پوری دنیا  میں سیاسی منصب  اور عہدے عوام کی خدمت کے  لیے  ہوتے ہیں اس لیے ان  عہدوں پر براجمان ہونا ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے مگر ہمارے سیاست دان تو ان عہدوں پر آکر عوام کو کوئی فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر قانون سازی کرتے ہں اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اعزاز سمجھتے ہیں۔

جس پر وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کہتے ہں کہ میں  بہت احسان مند ہوں کہ عمران خان نے مجھے وزیراعلیٰ بنایا انہوں نے آپکو وزیراعلیٰ بنایا تو آپ نے کونسا ایسا اقدام کیا جس کے باعث ملک اور عوام کو فائدہ ہوا ہو۔ اگر ہوا ہو تو پھر تو واقعی یہ ایک اعزاز ہے اور عمران خان کا احسان ہے پرویز الٰہی پر کہ اس نے ان کو عوام کی خدمت کا موقع دیا۔ مگر نہیں ایسا عمل تو کوئی دور دور تک نظر نہی آتا۔ 

ہاں اتنا ضرور ہے کہ وفاقی حکومت کو سخت مزاحمت دی جانی چاہیے اس سے عوام کو جتنی مرضی تکلیف  پہنچی ہو۔ سیاسی جماعتیں  پاکستان کے حالات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی ہیں جبکہ میں سارا قصور وار اس عوام کو ٹھہراتا ہوں جو ان لوگوں کے پیچھے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اندھوں کی طرح تقلید کرتے ہیں اور سیلفیاں بناکر سوشل میڈیا پر لگاتےہیں بس یہ دکھانے کے لیے کہ ہم بااثر افراد تک رسائی رکھتے ہں ۔ ہم پاکستانی لوگ اپنی ذاتی مفاد سے آگے بالکل بھی نہیں  سوچتے اور یہی ایک وجہ ہے کہ ہم لوگوں نے ان سیاست کو فرعون بنا کر خود اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے۔

موجودہ دورمیں  کسی بھی ملک کی طاقت  ٹیکنالوجی کے ساتھ اس ملک کے جوان افرادی قوت پر منحصر کرتی ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ جرمنی جوکہ ٹیکنالوجی میں کافی ترقی یافتہ ہے مگر جوان افرادی قوت کی کمی کے باعث ایسے پالیسی مرتب کر رہے ہں کہ وہ باہر کی  دنیا سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے ملک میں لانے کے لیے راغب کرسکیں ۔ اگر وہ ایسا کرنےمیں کامیاب نہ ہوئے  تو کچھ سالوں میں انکے لیے شدید مسائل درپیشں ہونگے۔ 

اسوقت براعظم ایشیا براعظم افریقہ اس جوان افرادی قوت سے بھرپور ہے مگر بدقسمتی سے وہاں کے کرپٹ نظام سیاست نے ان ملکوں کے لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان سے سال 2022 میں سات لاکھ پچاس ہزار پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر بیرون ملک جیسے جرمنی وغیر ہ میں چلے گئے ہیں۔ اور وہ ممالک ہمارے ان پڑھے لکھے نوجوانوں سے اپنی معیشت کو مزید مستحکم کرلیں گے۔ اسکو کہتے ہیں پکی پکائی دیگ پر آکر بیٹھ جانا۔ مطلب پاکستان نے ان ممالک کے لیے مفت میں یہ افرادی قوت تیار کر کے انکے حوالے کر دی۔ 

 پاکستان میں 26 سال سے کم عمر افراد ساٹھ فی صد ہے اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر ان نوجوانوں کو ایک صحیح سمت دے دی گئی تو میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگلے دس سال کے اندر پاکستان دنیا کا نہی تو کم ازکم ایشیا کا معاشی ٹائیگر بن سکتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام خاص طور پر ڈگری لیول کا تعلیمی نظام انتہائی فرسودہ نظام تعلیم ہے۔ یہ نظام بچوں کو صرف غلام بننے کی سوچ کے علاوہ کچھ نہی دے رہا۔ 

 حتیٰ کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالب علم جس کا خاص مضمون ہی یہ ہے کہ کاروبار کو کیسے بہترین طریقے سے چلایا چاسکتا ہے جیسے ہی یہ نوجوان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتا ہے وہ کوئی کاروبار کرنے کی بجاۓ کسی کمپنی کے اندر ملازمت تلاش کرنے میں کئی سال ضائع کر دیتا اور پھر ڈپرشن کا شکار ہو کر اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتا ہے ۔

ہماری یونیورسٹی کا نظام تعلیم اس طالب علم کے اندر وہ اعتماد ہی پیدا نا کرسکا کہ آپ کس طرح ایک کاروبار کوچھوٹے سے سرمائے شروع کر کے ایک بہت بڑی کمپنی میں بدل سکتے ہیں۔ اس نظام تعلیم کے ساتھ ہمارے سیاست دانوں نے ان نوجوانوں کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ انکو ایک درست سمت دکھانے کی بجائے اپنی ذاتی سیاسی جنگ میں دھکیل کر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔

 اس وقت پاکستان کا نوجوان اپنے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک اخلاقیات سے گر جانے کے لیے تیار ہے اور اس چیز پر وہ بالکل بھی شرمسار نہیں۔ آپ کسی بھی سیاسی لیڈر پر چاہے جتنی ہی مثبت تنقید کریں تو سوشل میڈیا پر آپ کے خلاف انتہا کی گندی اور غلیظ کمیپین شروع ہو جائے گی کہ خدا کی پناہ۔ اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں قاسم علی شاہ ہیں کہ ان کے ساتھ کیا حال کیا جارہا ہے۔ آخر میں بس یہی دعا ہے کہ اللہ ہمارے پاکستان کے نوجوان کا حامی و ناصر ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔