بلاگ
Time 01 فروری ، 2023

باچا خان، ولی خان اور اکیسویں صدی

پاکستانی رہنماؤں میں جو چند ایک انقلابی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں، ان میں سرفہرست نام خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کا ہے۔کیونکہ انقلابی شخص اپنی تعلیمات اور نعروں کے نفاذ کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہے ۔

 ہمارے ہاں موجود کوئی سیاسی ، مذہبی یا عسکری رہنما دوسروں سے جو مطالبہ کرتا ہے، اپنی ذات سے اس کا آغاز نہیں کرتا حالانکہ انقلاب کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ عمران خان کی مثال لے لیجئے ۔ وہ نعرہ ریاست مدینہ کا لگاتے ہیں خود ریاست بنی گالہ یا منی گالہ کے شہری ہیں اور دوسروں سے کہتے ہیں کہ میں آپ کیلئے ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہوں۔ باچا خان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ پہلے اپنی ذات میں انقلاب لائے، اپنے گھر میں انقلاب لائے اور پھر دوسروں سے اس کا مطالبہ کیا۔

پاکستان میں لوگ فقیر ہوتے ہیں لیکن جب سیاست میں آتے ہیں تو امیر بن جاتے ہیں ۔ نوکر چاکر ، برانڈڈ کپڑے ، نام کے ساتھ القاب لگا کر وہ ارب پتی اور کھرب پتی بن جاتےہیں۔ماضی قریب میں ہم نے اس کی مثال دیکھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں کتنے غریب امیر ہوگئے لیکن باچا خان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ امیرزادے اور خان آف ہشتغر کے بیٹے تھے تاہم سیاست میں آنے کے بعد فقیر بن گئے۔ لباس فقیروں والا، رہن سہن فقیروں والا ، انداز گفتگو غرور اور تکبر سے پاک عاجزی والا ،وغیرہ وغیرہ۔

آج کا سیاستدان فسادی تو ہوسکتا ہے لیکن مصلح نہیں ہوسکتا۔ باچا خان کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ وہ مصلح تھے۔اپنے پیروکاروں کے جذبات کو بھڑکانے کی بجائے انہیں سمجھاتے تھے ۔ہمارے موجودہ سیاستدان ہوا کے رخ پر چلتے ہیں۔ وہ عوام اور ووٹر کو اپنے پیچھے نہیں چلاتے بلکہ ان کے پیچھے چلتے ہیں لیکن باچا خان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ حاضر وموجود سے بیزار ہوکر ہوا کے مخالف رخ چلتے تھے ۔ مثلاً پختون وہ قوم ہے جو اسلحہ کو اپنا زیور سمجھتی ہے اور جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین رکھتی ہے لیکن ہوا کے رخ پر جانے کی بجائے باچا خان نے انہیں عدم تشدد کا فلسفہ دیا۔ وہ اپنے پختون فالورز اور خدائی خدمت گاروں کو تلقین کرتے رہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا اور کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو جواب دینے کی بجائے دوسرا گال بھی آگے کردیجئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بزدل تھے۔

 انہوں نے فرنگی کی آنکھوں میں بھی آنکھیں ڈال کر بات کی اور پاکستانی حکمرانوں کے بھی۔ اپنے نظریے پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ جیلیں کاٹیں، لاشیں اٹھائیں لیکن اپنے نظریے سےمنحرف ہوئے اور نہ جوابی تشدد کیا۔اس بات پر گاندھی بھی حیران تھے اور یہ دیکھنے کیلئے کہ پختون جیسی قوم کو باچا خان نے کس طرح عدم تشدد کے فلسفے کا قائل کردیا ہے ، وہ1938 میں خود ہشتغر آئے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ جن چیزوں پر وہ اپنی قوم کو قائل نہیں کراسکے اس پر باچا خان نے پختون قوم کو کیسے قائل کرلیا۔

ہمارے موجودہ سیاسی لیڈر زبان سے تو نہیں کہتے لیکن حقیقتاً وہ ذات پات کی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ لوگوں کی دولت سے مرعوب ہوتے ہیں، عمران خان ہوں، نواز شریف ہوں، زرداری ہوں یا مولانا فضل الرحمان ، سب اس معاملے میں ایک جیسے ہیں ۔ یہ جو الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے کا چکر ہے ، وہ حقیقت میں یہی ذات پات کی تقسیم ہے لیکن باچاخان کی انفرادیت ملاحظہ کیجئے کہ انگریزوں کے خلاف ہندوؤں(جن کے ہاں ذات پات کی تقسیم بہت زیادہ ہے) کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کرنے کے باوجود انہوں نے پختونوں کے ہاں ذات پات کی تقسیم اپنی خدائی خدمتگار تحریک کی حد تک ختم کی ۔وہ خان آف ہشتغر تھے لیکن ملنگ مشہور ہوئے ۔ انہوں نے نائی، موچی، کسان، لوہار اور اسی نوع کے لوگوں کو اپنے برابر بٹھایا اور انہیں اہم مناصب دیئے۔

باچا خان کی ایک اور انفرادیت یہ تھی کہ وہ پختونوں کے سیاسی لیڈر بھی تھے اور مذہبی لیڈر بھی ۔ نمازوں کی امامت بھی کرتے تھے ۔ جنازے بھی پڑھاتے تھے ۔ دینی مدرسے بھی قائم کئے ۔ ان کے یہ مدرسے دینی اور دنیوی تعلیم کا مجموعہ تھے ۔انہوں نے پختونوں کے حجرے کو بھی سنبھالا ہوا تھا، مسجد کو بھی اور سیاست کو بھی لیکن بعد میں ان کے جانشینوں نے یہ فلسفہ گھڑ لیا کہ مسجد مولوی کا اور حجرہ خان کا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی نے آکر ان سے حجرہ اور سیاست کی کرسی بھی چھین لی۔ مولانا مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بناکر مولوی کو اقتدار کا راستہ باچاخان کے جانشینوں نے دکھایا چنانچہ آج نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ شہباز شریف منتیں کرکے گورنر شپ میاں افتخار کو دینا چاہتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان نے وہ بھی اپنے سمدھی غلام علی کیلئےچھین لی،پھر نگراں وزارت اعلیٰ بھی لے گیا، پھر آدھی سے زیادہ کابینہ بھی لے گیا اور اے این پی کو صرف شاہد خان خٹک کی وزارت پر ٹرخا دیا۔

با چان خان کی ایک اور انفرادیت یہ تھی کہ لوگوں نے انہیں غدار کہا لیکن انہوں نے کبھی غداری کے فتوے کا جواب غداری سے ، گالی کاجواب گالی سے نہیں دیا۔ وہ پختونوں کو شناخت دے رہے تھے ۔ انہیں دنیا کی قیادت کے قابل بنانا چاہتے تھے لیکن کبھی پنجابی ، سندھی، بلوچ، سرائیکی یا مہاجر کی تضحیک نہیں کی۔وہ تو ہندو اور سکھوں کی بھی اتنی عزت کرتے تھے کہ وہ آج تک ان کا نام احترام سے لیتے ہیں لیکن بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے جو نام باچا خان اورعبدالصمد خان کا لیتے تھے لیکن پنجابیوں کو گالیاں دیتے تھے ۔حالانکہ یہ پنجابی نہیں بلکہ ایک ایلیٹ کلاس اور اسٹیبلشمنٹ ہے جوپختون کا استحصال کرتی ہے اور پنجابی ، سندھی ، بلوچ اور مہاجر کا بھی۔

وہ اپنی بات پر ڈٹ جانے والے تھے ۔ ڈٹ کر ہر قربانی کو تیار ہوتے تھے لیکن اصولوں کی خاطر ۔ مثلاً وہ انگریز کی غلامی نہیں کرنا چاہتے تھے ،اس لئے وہ ڈٹے رہے اور ہر قربانی دی۔ جمہوریت پر کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس کیلئے ہر قربانی دی ۔ اس اصول کی خاطر جیلیں کاٹیں ۔ گولیوں کا سامنا کیا ، لاشیں اٹھائیں اور دل پر پتھر رکھ کر کام بھی کئے ۔ مثلاًجمہوریت کی خاطر انہوں نے آمر ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کی بھی حمایت کی لیکن ایسا ہر گز نہیں تھا کہ وہ لکیر کے فقیر تھے۔وہ ایک اچھے قائد کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت عملی بدلتے رہے لیکن اپنی منزل اور نظریے سےمنحرف نہیں ہوئے اور یہ نہیں کہا کہ پختون کی بات ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

(کنونشن سینٹر اسلام آباد میں اے این پی کے زیر اہتمام ’’باچا خان، ولی خان اور اکیسویں صدی“ کے زیرعنوان سیمینار سے خطاب کا خلاصہ)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔