04 فروری ، 2023
(گزشتہ سے پیوستہ)
اقبالؔ نے کہا تھا کہ
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضروموجود سے بیزار کرے
باچا خان اس لحاظ سے حاضروموجود سے بیزار تھے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ باقی لوگ کیا کرتے ہیں بلکہ جو کچھ خود حق سمجھا اس سے چمٹے رہے۔ جیسا دیس ویسا بھیس کے برعکس ایک بڑے خان کا بیٹا اور پورے برصغیر کا لیڈر ہوکر بھی انہوں نے فقیرانہ لباس اختیار کئے رکھا۔ بندوق کو زیورخیال کرنے والے پختونوں کو عدم تشدد کا درس دیتے رہے لیکن دوسری طرف وہ حقیقت پسند بھی تھے۔ اپنے ہدف (عدم تشدد، امن اور پختونوں) کی فلاح سے رَتی بھر پیچھے نہیں ہٹے تاہم حالات کے تقاضوں کے تحت اپنی حکمتِ عملی بدلتے رہے ۔
مثلاً ابتدا میں وہ اس سوچ کے قائل تھے کہ اس خطے کے انسانوں کا بھلا متحدہ ہندوستان میں ہوگا ۔ طعنوں اور الزامات کی پروا کئے بغیر وہ کانگریس کے ہمنوا اور متحدہ ہندوستان کے حامی رہے ۔ پھر جب پاکستان حقیقت بن گیا تو انہوں نے میں نہ مانوں کی رٹ لگانے کی بجائے دل سے پاکستان کو تسلیم کیا لیکن انہیں اور پختونوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ۔ اس لئے کچھ عرصہ پختونستان کے حامی رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا تو پاکستانی سیاست میں عدم تشدد لانے اور اپنی قوم کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے سرگرم عمل ہوئے۔ 1973کے آئین کی تیاری میں جن لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا ان میں باچاخان کے بیٹے خان عبدالولی خان کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ بعض عقل کے اندھے آج بھی تعصب کی عینک لگاکر کہتے ہیں کہ باچا خان اور ان کے وارث پاکستان مخالف ہیں ۔
گویا باچا خان اپنے مقصد اور ہدف کی خاطر (نہ کہ وقتی مصلحت اور غرض کے لیے) وقت کے ساتھ ساتھ حکمت عملی بدلنے کے حامی تھے لیکن بدقسمتی سے آج ہم کچھ اور دیکھ رہے ہیں ۔ اسٹیج سیکریٹری خادم حسین صاحب نے مجھے جن اشعار کے ساتھ تقریر کیلئے بلایا اس میں ایک شعر کا مطلب یہ ہے کہ ہم اچھے کو اچھا تو کہتے ہیں لیکن چور کو چور نہیں کہتے ۔
یہاں پیپلز پارٹی ، نون لیگ ، بی این پی مینگل اور دیگر تمام جماعتوں کے رہنما موجود ہیں لیکن چونکہ خادم حسین صاحب نے ترغیب دی ہے ، اس لئے میں گستاخی کرتے ہوئے آج صرف اچھے کو اچھا کہنے پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ چور کو چور کہنے کی بھی جسارت کرتا ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی پوری قیادت اور قوم پرست آج باچا خان کے فلسفے کے خلاف وقتی مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ آج اس اسٹیج سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بڑی تقریریں ہوئیں لیکن کون نہیں جانتا کہ آج کی پی ڈی ایم وہی کردار دا کررہی ہے جو پچھلے برسوں میں پی ٹی آئی ادا کرتی رہی ۔ پھر آپ سب لوگ اس نظام کا حصہ کیوں ہیں؟ علی وزیر کے ساتھ جو ظلم عمران خان کی حکومت میں ہورہا تھا ، وہی ظلم ان کے ساتھ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی ہورہا ہے ۔
انہیں فوج نے اندر کیا لیکن کیس تو بلاول بھٹو کی حکومت نے بنایا ۔عمران خان کےا سپیکر ووٹ اور بجٹ وغیرہ کے لیے تو فوج کی اجازت سے پھر بھی پروڈکشن آرڈر جاری کرتے تھے لیکن پیپلز پارٹی کےا سپیکر راجہ پرویز اشرف کی یہ ہمت نہیں ہورہی کہ ہمارے مطالبات کے باوجود علی وزیر کے کسی اجلاس کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کردیں۔ شہباز شریف سے لے کر آفتاب شیرپائو تک سب یہ چاہتے تھے کہ میاں افتخارحسین پختونخوا کے گورنر بنیں لیکن مولانا فضل الرحمان نے چالیں چل کر گورنر شپ اے این پی سے چھین لی۔ آج گورنر حاجی غلام علی نے جو نگران حکومت بنائی ہے ، وہ پچاس فی صد جے یوآئی کے بندوں یا پھر مختلف اے ٹی ایمز پر مشتمل ہے ۔
میرا سوال یہ ہے کہ باچا خان کے پیروکار ہونے کے ناطے آپ لوگ اس ظلم پر کیوں خاموش ہیں ؟۔یہاں مسنگ پرسنز کی بڑی بات ہوئی لیکن باتیں کرنے والے سوائے منظور پشتین کے باقی سب حکومت کا حصہ ہیں(واضح رہے کہ اس مشترکہ حکومت میں آج بھی نیب کے سابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال مسنگ پرسنز کمیشن کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہیں) ۔ بلوچستان میں توباپ پارٹی کی حکومت کا پی ٹی آئی بھی حصہ ہے ، اکبر بگٹی کی جے ڈبلیو پی بھی اور اے این پی بھی جب کہ اس حکومت کو جے یو آئی،بی این پی مینگل ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے اور سب قدوس بزنجو حکومت کے دسترخوان سے مستفید ہورہے ہیں۔ میں نے ابتدا میں بہت تنقید کی تو قدوس بزنجو میرے پاس تشریف لائے۔
اپنے دھیمے انداز میں بولے کہ صافی صاحب! میں وہ وزیراعلیٰ ہوں جس کی قیادت پر مفتی محمود ، باچا خان ،ذوالفقار علی بھٹو ، سردار اختر مینگل ، نواب اکبربگٹی اورخان عبدالصمد خان کے سیاسی وارثین اور عمران خان کے پیروکاروں کا اتفاق ہے ۔ جب وہ سب میری قیادت پر متفق ہیں توتمہیں کیا تکلیف ہے؟ اب آپ لوگ مجھے بتائیں کہ میں قدوس بزنجو کو کیا جواب دوں ۔ جب سچ بولنا ہے تو پھر سنئے کہ ہم سب کو پتہ تھا کہ پی ڈی ایم زرداری صاحب نے بنائی ۔ پھر جب پی ڈی ایم نے ہائبرڈ رجیم کے خلاف دبائو بڑھا دیا تو عمران خان کو اقتدار میں لانے والی فوج نے اسے توڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل فیض حمید نے بلاول بھٹو کو گلگت سے بلایا ۔ پھر زرداری سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کیسز میں رعایت دینے کے سلسلے میں ڈیل ہوئی اور پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کو توڑ دیا ۔ میں نے اس وقت ایمل ولی خان سے پوچھا کہ زرداری صاحب نے تو ڈیل کر لی لیکن آپ کس کھاتے میں پی ڈی ایم سے نکل رہے ہیں؟
دوسری طرف اب جب زرداری صاحب مولانا اور نواز شریف کے ساتھ مل کر حکومت بنارہے تھے تو اے این پی کو حکومت سازی کی مشاورت میں بھی شریک نہیں کیا۔ زرداری صاحب ،میاں افتخارحسین کو نون لیگ کی طرف سے پیش کردہ گورنر شپ بھی نہیں دلواسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں عمران خان کے ذریعے بدتمیزی، گالم گلوچ اور پولرائزیشن کا جو کلچر عام کردیا گیا ہے ، اس کے تدارک کے لئے باچاخان کے امن اور عدم تشدد کے فلسفے کو عام کرنے کی جتنی زیادہ ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھئے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والی نئی نسل کو اب صرف باچاخان اور بھٹو کے قصوں سے نہیں ٹرخایا جاسکتا ۔ وہ تنقیدی ذہن کی حامل ہے اور باچا خان یا بھٹو کو سلام کرتے ہوئے آپ لوگوں کو دیکھ رہی ہے کہ آپ کا عمل باچا خان اور بھٹو جیسا ہے یا نہیں؟ ۔(اے این پی کے زیراہتمام باچاخان، ولی خان اور اکیسویں صدی کے زیرعنوان جناح کنونشن سنٹر میں منعقدہ کانفرنس سے راقم کے خطاب کا خلاصہ)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔