بلاگ
Time 27 فروری ، 2023

جاپان کے شہنشاہ کی سالگرہ، اصل جانشین کون؟

شہنشاہ نارو ہیتو نے اپنے والد آکی ہیتو کے دستبردار ہونے کے سبب یکم مئی سن 2019 سے تخت سنبھالا ہوا ہے— فوٹو: جیو نیوز
شہنشاہ نارو ہیتو نے اپنے والد آکی ہیتو کے دستبردار ہونے کے سبب یکم مئی سن 2019 سے تخت سنبھالا ہوا ہے— فوٹو: جیو نیوز

جاپان اور دنیا بھر میں جاپانی سفارتخانوں میں شہنشاہ نارو ہیتو کی 63 ویں سالگرہ کی تقریبات منائی جارہی ہیں۔

نارو ہیتو ملک کے 126 ویں شہنشاہ ہیں جو کریسنتھیمم تخت پرحکمران ہیں۔ یہ ڈیڑھ ہزار برس سے جاری دنیا کی قدیم ترین موروثی شہنشاہیت ہے۔ شہنشاہ نارو ہیتو نے اپنے والد  آکی ہیتو کے دستبردار ہونے کے سبب یکم مئی سن 2019 سے تخت سنبھالا ہوا ہے۔

تو کیا جاپان میں ایک وقت میں دوشہنشاہ ہیں؟ کیا محلاتی سازشیں ہوتی ہیں؟ اولاد نرینہ نہ ہونے کے سبب اگلا وارث کون ہوگا؟ ذکر ان سب باتوں کا مگر  پہلے کچھ بات سالگرہ کی۔

جاپان اور دنیا بھر میں جاپانی سفارتخانوں میں شہنشاہ نارو ہیتو کی 63 ویں سالگرہ کی تقریبات منائی جارہی ہیں— فوٹو: جیو نیوز
جاپان اور دنیا بھر میں جاپانی سفارتخانوں میں شہنشاہ نارو ہیتو کی 63 ویں سالگرہ کی تقریبات منائی جارہی ہیں— فوٹو: جیو نیوز

ٹوکیو میں شاہی محل کے باہر جمعرات کو ہزاروں افراد ملک کا پرچم تھامے جمع ہوئے، شہنشاہ کو ان کی سالگرہ اور تخت پوشی کی مبارک باد دی۔

لوگوں کو عقیدت اس لیے بھی ہے کہ جاپان میں شہنشاہ کو مذہبی حیثیت بھی حاصل ہے۔ وہ شنتو مذہب کے سربراہ ہیں اور انہیں سورج کی دیوی اماتیراسو کی براہ راست نسل کا نمائندہ مانا جاتاہے۔  یہاں آنیوالوں کا جذبہ اس لیے بھی دیدنی تھا کیونکہ کورونا وبا کے سبب سن 2020 سے سالگرہ کی یہ تقریب منسوخ ہوتی رہی تھی۔

جمعرات کی صبح شہنشاہ بالکونی پرتین بار جلوہ گر ہوئے۔اس موقع پر ملکہ ماساکو اور شہنشاہ کی اکلوتی بیٹی شہزادی آیکو بھی موجود تھیں جن کی عمر 21 برس ہے۔

شہنشاہ فی الحال اپنی چہیتی بیٹی شہزادی آئیکو کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں— فوٹو: جیو نیوز
شہنشاہ فی الحال اپنی چہیتی بیٹی شہزادی آئیکو کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں— فوٹو: جیو نیوز

ہارورڈ سے تعلیم یافتہ سابق ڈپلومیٹ ملکہ ماساکو کے چہرے پر خوشی اور ان کی طبیعت میں بہتری کے آثار نمایاں تھے۔ وہ شہزادی آئیکو کی پیدائش کے بعد سے ڈپریشن اور دیگر نوعیت کےذہنی دباؤ کے مسائل کا شکار ہیں۔

چونکہ جاپان میں صرف گنتی کی چند ملکاؤں نے راج کیا ہے ورنہ اب تک شہنشاہ ہی تخت کےوارث رہے ہیں، اس لیے جاپان میں باتیں ہوتی رہی ہیں کہ شاہی جوڑہ اولاد نرینہ سے محروم ہے اور یہ بھی کہ مستقبل میں تخت کون سنبھالےگا؟

سالگرہ کی اس تقریب کے موقع پر شہنشاہ کے چھوٹے بھائی ولی عہد آکی شینو، ان کی اہلیہ شہزادی کیکو  بھی بالکونی پر موجود تھیں اور ساتھ ہی ان کی دوسری بیٹی شہزادی کاکو بھی۔ ولی عہد شہزادے کی بڑی بیٹی اور  شہنشاہ کی بھتیجی شہزادی ماکو  نے حال ہی میں اپنے ہم جماعت عام شہری سے شادی کرکے شاہی خان کو تج کیا ہے، وہ اس موقع پر یہاں نہیں تھیں۔ امریکا میں وکالت کرنیوالے اپنے شوہر کےساتھ وہ نیویارک میں مقیم ہیں اوراب شہزادی نہیں کہلاتیں۔

سالگرہ کی اس تقریب کے موقع پر شہنشاہ کے چھوٹے بھائی ولی عہد آکی شینو، ان کی اہلیہ شہزادی کیکو بھی بالکونی پر موجود تھیں اور ساتھ ہی ان کی دوسری بیٹی شہزادی کاکو بھی— فوٹو: جیو نیوز
سالگرہ کی اس تقریب کے موقع پر شہنشاہ کے چھوٹے بھائی ولی عہد آکی شینو، ان کی اہلیہ شہزادی کیکو بھی بالکونی پر موجود تھیں اور ساتھ ہی ان کی دوسری بیٹی شہزادی کاکو بھی— فوٹو: جیو نیوز

شہنشاہ نارو ہیتو  نے آنیوالوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کسی ملک کا نام تو نہیں لیا مگر بتایا کہ وہ اس بات پر دُکھی ہیں کہ 'دنیا کےمختلف ممالک میں لوگ تنازعات کے سبب مسائل جھیل رہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت پر، جس کا دنیا کو سامنا ہے، انہیں افسوس ہے۔‘

شہنشاہ نے کہا کہ وہ اس اہمیت کو محسوس کرتے ہیں کہ ہر ملک صرف اپنے بارے ہی میں نہ سوچے بلکہ ڈائیلاگ کرے تاکہ اختلافات ختم ہوں اور مشکلات حل کرنے میں تعاون کیا جائے۔ شہنشاہ کے نزدیک ہمیں اس سوال کا سامنا ہے کہ 'دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیےہم اپنے طورپر کیا کرسکتے ہیں؟‘

جاپان میں ہر شہنشاہ کے دور کو  ایک خاص نام دیاجاتا ہے اور یہ دور 'ریوا' کے نام سے موسوم ہے۔ شہنشاہ نارو ہیتو کی تخت نشینی 200 سال میں اپنی نوعیت کا پہلا موقع تھا کیونکہ ان کے والد عام روایت کے برعکس جیتے جی تخت سےدستبردار ہوئے ہیں۔ ان کا 'ہیسی'  دور  تقریباً 3عشروں پرمحیط رہا۔

موجودہ شہنشاہ نے جب تخت سنبھالا تو ان کی عمر 60 برس تھی۔ ہمارے ہاں تو اس عمر کے آدمی کو ساٹھا باٹھا کہا جاتا ہے مگر جاپان میں عام آدمی کی عمر تقریباً 85 برس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہنشاہ نارو ہیتو نے یہ محسوس نہیں کیا کہ اوہو اب کہیں 60 برس میں جاکر یہ موقع ملا ہے بلکہ انہوں نے اسے اس طرح محسوس کیا کہ ارے ابھی تو عمر ہے ہی کیا !صرف 60 برس!

نارو ہیتو آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انگلینڈ میں تعلیم نے انہیں یہ موقع دیا کہ وہ جان سکیں کہ جنگ عظیم میں امریکا کا اتحادی برطانیہ اوراس کا معاشرہ کیسا ہے اوریہ بھی کہ نہ صرف اس معاشرے بلکہ دنیا بھر سے آکسفورڈ  آنیوالوں کا جاپان کے بارے میں تاثر کیا ہے۔

جاپان پر امریکا کے ان حملوں کو اب 75 برس سے زائد ہوچکے ہیں۔ لواحقین سے ملاقاتیں کرنیوالے شہشناہ یہ بھی جانتےہیں کہ متاثرین پر گزری کیا تھی؟ ہیرو شیما اور ناگاساکی کی یادیں انہیں لوٹ لوٹ کر نہ آتی ہوں یہ تصور ہی محال ہے۔

اسی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان کا نیا آئین 1946 میں بنایا گیا تھا مگراس پر عمل قیام پاکستان کےسال یعنی 1947 سے ممکن ہوا۔ یہ سابقہ میجی آئین سے دو بنیادی باتوں میں مختلف ہے۔ اب طاقت کا سرچشمہ شہنشاہ نہیں عوام ہیں اور دوسرا دائمی مقصد ملک کو بطور پرامن اورجمہوری حیثیت میں قائم رکھنا ہے۔ آئین کی ایک انتہائی متنازع شق کے تحت جاپان اپنی قوم کو حاصل جنگ کے حق سے بھی دستبرار ہوچکا ہے۔

جہاں تک شہنشاہ کا تعلق ہے تو وہ اب ریاست اور عوام کے اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے جو رسمی امور انجام دیتا ہے۔ شہنشاہ پارلیمنٹ کے نامزد کردہ وزیراعظم کا تقررکرتا ہے، پارلیمنٹ کا اجلاس بلاتا ہے، چیف جسٹس کا تقرر کرتا ہے، قوانین کا اجراء کرتا ہے، لوگوں کو اعزازات سے نوازتا ہے مگر یہ سب بھی کابینہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔

ماضی کا دور اپنی جگہ ،اب مصنوعی ذہانت کا دور ہے، دنیا بدل چکی، اب نئے تقاضے ہیں۔ توکیا شہنشاہ نارو ہیتو اپنے کردار پر نظرثانی کریں گے؟

ایک انٹرویو میں شہنشاہ نارو ہیتوکہ چکے ہیں کہ وہ لوگوں سے ملاقات کے موقعوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دور کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اپنے مستقبل کے کردار پر نظر ڈالتے رہیں گے، تاہم یہ واضح ہے کہ وہ آئین پر عمل کاعزم کیے ہوئے ہیں اور ریاست کی علامت کے طور پر ہی اپنا کردار جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں تو ہرشخص لاٹھی یا کوئی اور  متبادل ذریعہ ڈھونڈ کر قوم کو سدھارنے کی فکر میں ہے تاہم جاپان کے شہنشاہ خود کو اس بات کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں کہ وہ خود کو بہتر  تر بناتے رہیں۔

شہنشاہ کے والد یعنی شہنشاہ ایمریٹس اور ملکہ ایمریٹا کے حیات ہونے کے سبب یہ بھی سوال اٹھتا رہا ہے کہ شہنشاہ کی اتھارٹی تقسیم تو نہیں ہورہی؟

نارو ہیتو کے نزدیک ان کے والد اور والدہ اپنے فرائض انجام دے چکے۔ والدین کو اپنی پسند کی ان چیزوں میں وقت صرف کرنے کا موقع ملنا چاہیے جو سرکاری مصروفیات کے سبب رہ گئیں۔ شہنشاہ کی والد کو بائیولوجیکل لیبارٹریز میں دلچسپی ہے جبکہ والدہ موسیقی کی پرفارمنس اور آرٹ دیکھنے کی دلدادہ ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ شہنشاہ کی اولاد نرینہ نہ ہونے کے سبب جانشین کون ہوگا؟

سرکاری امور انجام دینے والے مردوں کی تعداد اس وقت شاہی خاندان میں کم ہے۔ کئی عمر رسیدہ ہیں ، کچھ نے خاندان سے باہر شادی کرکے اپنی رکنیت ہی ترک کردی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایشو شاہی خاندان کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔

تو کیا شہنشاہ کو  بیٹے کی تمنا ہے؟ کیا وہ مزید اولاد چاہتے ہیں یا بیٹی کو تخت سونپنا چاہتے ہیں؟ یہ بھی کہ شہزادی کی شادی کس سے ہوگی؟ اس سے جاپان کی قدیم ترین شہنشاہیت پر اثرات کیا ہوں گے؟

شہنشاہ ان اہم معاملات پر باتوں سے گریزاں ہیں۔  وہ فی الحال اپنی چہیتی بیٹی شہزادی آئیکو کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی شہزادی جو جاپانی زبان اور ادب پر دسترس رکھتی ہو۔ مستقبل کے خواب دیکھتی ہو مگر شاہی خاندان کے بالغ فرد کی حیثیت سے اپنی سرکاری ذمہ داریوں میں توازن برقرار  رہے۔

تو کیا شہنشاہ نے جانشینی سے متعلق سوچاہی نہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ وہ اس پر اپنے ولی عہد بھائی سے کئی بار بات کرچکے ہیں۔ وہ کس نتیجے پر پہنچے؟ یہ پتے انہوں نے کسی اچھے وقت کے لیے سنبھال رکھے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔