آخر ہم ناشتے میں روز ایک ہی جیسی غذا کیوں کھانا پسند کرتے ہیں؟

ایک تحقیق میں اس سوال کا جواب دیا گیا / سوشل میڈیا فوٹو
ایک تحقیق میں اس سوال کا جواب دیا گیا / سوشل میڈیا فوٹو

ناشتے کو دن کی سب سے اہم غذا کہا جاتا ہے مگر کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ بیشتر افراد روزانہ ایک ہی طرح کی غذا سے دن کا آغاز کرتے ہیں؟

عام طور پر ناشتے کے انتخاب میں سادہ اور جلد تیار ہونے والی غذا کو ترجیح دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد ناشتے میں بس ایک ہی غذا کھانے کے عادی ہو جاتے ہیں اور ان کے معمول میں بہت کم تبدیلی آتی ہے۔

مگر سائنسدانوں کو اس سوال نے کافی عرصے سے الجھا کر رکھا تھا کہ دن یا رات کے کھانے میں تو لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کھانوں میں تنوع ہو مگر صبح وہ ایک ہی غذا کو مسلسل کیوں کھاتے ہیں۔

کچھ عرصے پہلے ایک تحقیق میں اس سوال کا جواب دیا گیا۔

محققین نے بتایا کہ نفسیاتی، حیاتیاتی اور ثقافتی وجوہات کھانوں کے حوالے سے ہماری توقعات کو طے کرتی ہیں۔

دن بھر میں ہمارا جسم ایک مخصوص حیاتیاتی گھڑی کے مطابق کام کرتا ہے۔

24 گھنٹے کا یہ چکر نیند، غذا اور دیگر افعال پر مبنی ہوتا ہے اور ہمارے دماغ کے کروڑوں خلیات اس حیاتیاتی گھڑی کو ریگولیٹ کرتے ہیں، جس کے باعث مخصوص وقت پر ہمیں بھوک محسوس ہوتی ہے یا نیند آنے لگتی ہے۔

یہی گھڑی ہماری غذا کے وقت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیدرلینڈز کی Erasmus یونیورسٹی نے تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔

درحقیقت محققین نے ناشتے کے یکساں معمول کی جانچ پڑتال کا فیصلہ خود اپنی عادات کی وجہ سے کیا، کیونکہ وہ خود روزانہ ناشتے میں ایک ہی جیسی غذا کھانے کے عادی تھے۔

اس تحقیق کے لیے 4 ہزار کے قریب افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

ان میں سے 1275 امریکی شہری تھے جبکہ 2624 فرانس سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی غذائی عادات کے بارے میں تفصیلات حاصل کی گئیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ دونوں گروپس کے 68 فیصد افراد ہر ہفتے کم از کم 2 بار ایک ہی ناشتہ کرنے کے عادی تھے۔

اس کے مقابلے میں ہر ہفتے رات کے کھانے کے لیے کسی ایک غذا کا استعمال 2 بار کرنے والے افراد کی تعداد محض 9 فیصد تھی۔

محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے مختلف عناصر کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک عنصر تو ثقافتی رجحانات پر مبنی ہے جس کے باعث لوگ ناشتے کے لیے ایک ہی جیسی غذا کا انتخاب کرتے ہیں.

انہوں نے بتایا کہ روزمرہ کی مصروفیات کے باعث بھی لوگوں کے پاس ناشتے کی تیاری کے لیے وقت کم ہوتا ہے، یعنی انہیں دفتر، اسکول یا دیگر جگہوں پر جانے کی جلدی ہوتی ہے تو ناشتے کے لیے نخرے کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حیاتیاتی گھڑی بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے کیونکہ اچھی نیند کے باعث بیشتر افراد کے دن کا آغاز جسمانی اور ذہنی مستعدی کے ساتھ ہوتا ہے، تو وہ ناشتے کے لیے ایسا انتخاب کرتے ہیں جس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ کیونکہ صبح کے وقت جسمانی توانائی عروج پر ہوتی ہے اور لوگ زیادہ عملی انتخاب کرتے ہیں جو صحت کے لیے مفید بھی ہو۔

یعنی ایسی غذا جو وہ ناشتے میں کھانا پسند کریں اور بلاسوچے سمجھے اس معمول کو بار بار دہراتے رہیں۔

مگر جیسے جیسے دن گزرتا ہے تو جسمانی توانائی میں بتدریج کمی آتی ہے اور غذائی افادیت کا خیال ذہن سے غائب ہونے لگتا ہے اور اس کی جگہ کھانے سے مزے کا حصول زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے، اسی وجہ سے لوگ دوپہر اور رات کے کھانوں میں تنوع اور ذائقے کی خواہش کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل Appetite میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :