Time 20 مارچ ، 2023
بلاگ

اپنے آپ کو مت جلاؤ

حکومت بڑی ناراض ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ عدالت انہیں ضمانت دے دیتی ہے۔ مریم نواز نے زمان پارک لاہور کو ضمانت پارک قرار دیدیا ہے اور انہوں نے تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ 

جس جماعت کو حکمران دہشت گرد اور جس عمران خان کو فاشسٹ قرار دیا جارہا ہے اس عمران خان کو اسلام آباد کی ایک عدالت ان کی گاڑی میں حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دے دیتی ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی منسوخ کردیتی ہے۔ جج صاحب نے 18 مارچ کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کرنی تھی لیکن عدالت کے باہر ہنگامے کے باعث وہ اپنی کارروائی مکمل نہ کر سکے اور انہوں نے مقدمے کی سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔ دو دن پہلے تک ان جج صاحب کو تحریک انصاف والے برا بھلا کہہ رہے تھے اور جب انہوں نے عمران خان کو گاڑی میں حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دی تو وہ حکمران اتحاد کی تنقید کی زد میں آگئے۔ 

بہت عرصے کے بعد جج صاحبان کو اس صورتحال کا سامنا ہے جس کا ہم جیسے صحافیوں کو اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر حکومت ہم سے ناراض رہتی ہے۔ جب حکومت کے لوگ اپوزیشن میں آتے ہیں تو پھر ہم انہیں بہت اچھے لگتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم ان کی مرضی کا سچ بولنے کی بجائے اپنی مرضی کا سچ بولتے ہیں۔

 28 فروری کو عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی تھی، اس دن اسلام آباد پولیس نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے ہائی کورٹ کے احاطے میں کچھ سینئر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے پر صحافیوں نے احتجاج کیا اور تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے وعدہ کیا کہ کارروائی ضرور ہوگی۔ ایک دن وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئے اور اگلی صبح تک کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔ پھر کئی صبحیں گزر گئیں کوئی کارروائی نہ ہوئی تو ایک حکومتی شخصیت نے کہا کہ دراصل ہم نے اسی پولیس کے ذریعہ عمران خان کو گرفتار کرنا ہے اگر آپ کے مطالبے پر پولیس کے خلاف کارروائی کردی تو ان کا مورال ڈائون ہو جائے گا اس لئے آپ ہماری مدد کریں اور جن صحافیوں پر تشدد ہوا ہے ان کی پولیس سے صلح کرا دیں۔

 میں نے معذرت کی تو مجھے کہا گیا کہ آپ پولیس کے خلاف محاذ بنا کر عمران خان کے لئے سہولت کاری کر رہے ہیں لیکن یاد رکھیں وہ ایک محسن کش انسان ہے اس سے آپ کو کبھی خیر نہیں ملے گی۔ یہ سن کر میں ہنس دیا اور جواب میں کہا کہ مجھے عمران خان سے کوئی خیر چاہیے نہ خیر کی توقع ہے ،مجھے اپنے ساتھیوں کے لئے انصاف چاہیے جنہیں پولیس نے بلاوجہ مارا۔

 مجھے یاد دلایا گیا کہ عمران خان کے دور اقتدار میں آپ کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئیں، بڑی پابندیاں لگیں، تحریک انصاف کے وزراء نے پریس کانفرنسوں میں آپ کے مرحوم والد پر جھوٹے الزامات لگائے، خدارا ان فاشسٹوں کے سہولت کار نہ بنیں۔ میں نے اپنے مہربان کو یاد دلایا کہ جو گالیاں مجھے اور میرے والد کو تحریک انصاف کے یوٹیوبرز اور وزراء نے دیں وہی گالیاں ان سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیاٹیم بھی دیتی رہی۔ میں ساتھیوں کے لئے انصاف مانگتا رہا اور صاحبان اختیار میرے ساتھ ڈیل کی کوشش کرتے رہے۔ 

نہ انصاف ملا نہ ڈیل ہو سکی اور 18 مارچ آگیا۔ 18مارچ کو عمران خان اسلام آباد کی ایک سیشن کورٹ میں پیش ہونے کے لئے زمان پارک سے روانہ ہوئے تو ان کے گھر پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔ پولیس نے وہاں سے اسلحہ اور پٹرول بم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ دوسری طرف میڈیا کی آواز دبانے کے لئے پیمرا نے ایک حکم نامہ جاری کردیا کہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے یا اندر کسی قسم کے مظاہرے کی کوریج نہ کی جائے۔ زمان پارک پر دھاوا اور پیمرا کا حکم نامہ عمران خان کی اصل سہولت کاری ثابت ہوا۔ عمران خان نے بیان جاری کردیا کہ انہیں گرفتار کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے لہٰذا تحریک انصاف کے کارکن جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے اور پھر وہاں جو ہوا اس کی تفصیل سب جانتے ہیں۔ 

اگر زمان پارک پر دھاوا نہ بولا جاتا تو اسلام آباد میں ہنگامہ نہ ہوتا۔ زمان پارک پر دھاوا بولنے کا حکم پنجاب کی نگران حکومت اور اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی ایک اور نادان حکومت نے دیا۔ نگران حکومت کے طرز عمل اور مسلم لیگ ن کے بیانیے میں فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ نگران حکومت انتخابات کرانے آئی تھی لیکن اب اس نے عمران خان کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ہے اور شاید اسی لئے 18مارچ کی رات تحریک انصاف کے کارکنوں نے زمان پارک کے قریب پنجاب پولیس پر حملہ کردیا اور ایلیٹ فورس کی ایک گاڑی نہر میں پھینک دی۔ 

یہ سب قابل مذمت ہے۔پنجاب کی نگران حکومت کہتی ہے کہ ایلیٹ فورس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔ ضرور کریں، یہ بھی تو بتائیں کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر پر دھاوا بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ آج پاکستان انتقام کی سیاست کا اسیر بن چکا ہے۔ رانا ثنا اللہ کو وہ ہیروئن نہیں بھولتی جو عمران خان کی حکومت میں ان پر ڈال کرانہیں گرفتار کیا گیا۔ مریم نواز کو کراچی میں رات کے وقت ہوٹل کے کمرے میں گھس آنے والوں کی بدتمیزی نہیں بھولتی، فریال تالپور کو چاند رات پر اسپتال سے اپنی گرفتاری نہیں بھولتی اور اب مدتوں تک عمران خان کو زمان پارک میں اپنے گھر پر حملہ نہیں بھولے گا۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جو کیا وہی کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ سیاست نہیں انتقام ہے۔

 عمران خان اقتدار میں واپس آکر مخالفین سے دوبارہ انتقام لیں گے اور ہم اس انتقام کے ’’چکر‘‘ میں ہی پھنسے رہیں گے۔ جب میرے جیسے کچھ صحافی کہتے ہیں کہ انتقام کی سیاست مت کرو بلکہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا مفاد حاصل کرنے والوں پر نظر رکھو تو جنرل باجوہ کے میڈیا کمانڈو میری سرکوبی شروع کردیتے ہیں۔ آج کل مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جنرل فیض کے خلاف بولتے ہیں لیکن باجوہ کے ساتھ سیز فائر ہے کیونکہ باجوہ سے عمران خان کے خلاف کچھ ثبوت ملنے کی امید ہے۔ یہ امید کبھی پوری نہیں ہوگی۔ باجوہ صاحب نے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر عمران خان پر سنگ باری کی تو دوسری طرف کے سنگ باز زیادہ اچھا نشانہ لگائیں گے۔ سیاستدان آڈیو لیکس کے ذریعہ ایک دوسرے کو بلیک میل کرنا بند کریں۔ پچھلے دنوں میں نے صدر عارف علوی اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی آڈیو لیک پر سوال اٹھایا کہ یہ سب کون ریکارڈ کر رہا ہے؟

 ایک دوست نے خبردار کیا کہ خاموش رہو ورنہ تمہاری بھی آڈیو لیک ہو جائے گی۔ مجھے جس آڈیو کے لیک ہونے کی دھمکی دی جا رہی ہے وہ پنجاب کی نگران حکومت کی حلف برداری سے دو دن پہلے کی ہے۔ میں نے کسی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس نگران حکومت کا حصہ نہ بنو اور اس دوران کچھ گستاخانہ فقرے بھی زبان سے پھسل گئے۔ ان فقروں کو توڑ مروڑ کر سامنے لانا ہے تو لے آئیں لیکن میں انتقام کی سیاست اور انتقام کی صحافت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ آج نہیں تو کل انتقام کی آگ میں ایک دوسرے کو جلانے کی کوشش کرنے والوں کو پتہ چلے گا کہ اس آگ میں تو انہوں نے اپنے آپ کو جلا دیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔