22 مارچ ، 2023
قومی ائیر لائن (پی آئی اے) کے پائلٹوں کی جانب سے فلائٹ سیفٹی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
پی آئی اے پائلٹس کی جانب سے فضائی سفر کے قوانین کی خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں، عملے اور مسافروں کی سلامتی کے پیش نظر فلائٹ سیفٹی قوانین میں طے ہے کہ دوسری پرواز سے پہلے پائلٹ اور فرسٹ آفیسر کیلئے 12 گھنٹے آرام لازمی ہے لیکن پی آئی اے میں یہ معاملہ بھی اُلٹا چل رہا ہے۔
زیادہ پیسوں کی خاطر پائلٹ بغیر آرام کیے مقررہ حد سے زیادہ پروازیں اڑا رہے ہیں
زیادہ پیسوں کی خاطر پائلٹ بغیر آرام کیے مقررہ حد سے زیادہ پروازیں اڑا رہے ہیں، پائلٹوں کی کمی کے باعث پی آئی اے کی مجبوری اپنی جگہ مگر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ان معاملات پر آنکھیں بند رکھنا ایک طرف طیاروں اور مسافروں کو خطرے میں ڈال رہا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی پابندیاں مزید طویل ہوسکتی ہیں۔
اندازہ صرف ایک دن یعنی 20 مارچ کی پروازوں سے لگایا جا سکتا ہے، جب پی آئی اے کی پرواز پی کے 203 صرف 5 گھنٹے کے نوٹس پر آپریٹ ہوئی، پی کے 211 چھ گھنٹے کے نوٹس پر اور اسلام آباد سے دمام کی پرواز پی کے 245 کیلئے پائلٹ اور فرسٹ آفیسر کو صرف 2 گھنٹے کے نوٹس پر ڈیوٹی پر طلب کیا گیا۔
ان میں سے کوئی پائلٹ اسٹینڈ بائی ڈیوٹی پر بھی نہیں تھا، منگل 21 مارچ کو کیپٹن شاہ نے پروازPK 284 دبئی پشاور آپریٹ کی، پھر یہ بائی روڈ دن 12 بجے اسلام آباد پہنچے اور رات کو اسلام آباد سے القسیم کی پروازپی کے167 آپریٹ کی، مطلب ریسٹ ٹائم پورا کیے بغیر 24 گھنٹے میں دو پروازیں آپریٹ کر رہے ہیں۔
دوسری پرواز سے قبل 12 گھنٹے آرام کا قانون اس لیے بنایا گیا کہ ایک تھکا ہوا پائلٹ طیارے کی تباہی اور مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔
سی اے اے قانون کے تحت پائلٹ ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 100 گھنٹے ڈیوٹی کرسکتا ہے
ذرائع بتاتے ہیں سی اے اے مخصوص حالات میں پائلٹس کی ڈیوٹی میں کچھ چھوٹ دے سکتی ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں حادثات اور بین الاقوامی پابندیوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
سی اے اے قانون کے تحت پائلٹ ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 100 گھنٹے ڈیوٹی کرسکتا ہے لیکن فروری میں پی آئی اے کے دو پائلٹس نے 104 اور 105 گھنٹے ڈیوٹی کی۔
پی آئی اے ذرائع کے مطابق پائلٹس کو لالچ ہوتا ہے کہ جتنی زیادہ پروازیں، اتنے زیادہ پیسے جب کہ پی آئی اے کی مجبوری یہ ہے کہ پائلٹس کی کمی کا شکار ہے، طیاروں اور مسافروں کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود سی اے اے نے اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
حالانکہ پی آئی اے ہو یا سی اے اے، دونوں ہی عالمی پابندیوں کا شکار اور انڈر آڈٹ ہیں اور موجودہ صورتحال میں دونوں کیلئے آڈٹ میں کلیئر قرار پانا سوالیہ نشان ہے۔
جیونیوز نے دونوں اداروں کے حکام سے مؤقف مانگا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔