29 مارچ ، 2023
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری عدالتی فیصلوں اور رویے پر عائد ہوتی ہے۔
میاں جاوید لطیف نے مزید کہا کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے پہلے نمبر پر جج، دوسرے پر جرنیل اور تیسرے پر سیاست دان ہیں، مگر سزائیں صرف سیاست دانوں کو ملیں، جج اور جرنیلوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، آج بھی چار تین فیصلے میں تین کا فیصلہ ماننے کو کہا جارہا ہے اور چار کےفیصلے کو عام معاملہ قرار دیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منیر سے شروع ہونے والا نظریہ ضرورت کا سلسلہ آج تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، رات 12 بجے دروازہ کھلتا ہے اور کسی کی سنوائی ہو جاتی ہے، کسی وزیراعظم کو ہائی جیکر بنادیا جائے تو صبح میں بھی دروازہ کھلنے کا نام نہیں لیتا۔
جاوید لطیف نے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ اس وقت یاد آنی چاہیے تھی جب 1999میں آپ نے نواز شریف کو سزا دی، 2018 میں میری قیادت کو الیکشن سے باہر رکھ کر انھیں منصفانہ الیکشن کہا گیا، کیا پاکستان متحمل ہے بار بار الیکشن کرانے کیلئے؟ صرف ایک لاڈلے کی خواہش کیلئے؟
میاں جاوید لطیف نے کہا کہ الیکشن سے بھاگ وہ رہے ہیں جن کو ڈر ہے کہ ان کا کچھا چٹھہ کھل نہ جائے۔
انہوں نے کہا کہ ججوں کے فیصلوں اور رویے سے پاکستان کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، اوور سیز پاکستانی، پاکستان کے زمینی حقائق دیکھیں، نواز شریف تھورا بھی سچ بول دیں تو پاکستان میں وہ اودھم مچے کہ پاکستان کے ساتھ یہ کیا کھلواڑ ہوتا رہا ہے۔
جاوید لطیف نے کہا کہ اداروں میں بیٹھے لوگوں کے غیر آئینی اقدامات کے بعد توپوں کا جو رخ تھا وہ نواز شریف نے وطن کی خاطر اپنی طرف کرلیا، معافی سے معاملہ آگے نکل چکا ہے، تمام دنیا کو پتہ ہے کہ ثاقب نثار کو جنرل فیض نے فیصلہ لکھ کر دیا اور سائن کرنے کو کہا، ہر کردار اعتراف کر رہا ہے، جن میں جنرل باجوہ، جنرل فیض اور جسٹس سعید کھوسہ شامل ہیں۔
جاوید لطیف نے کہا کہ جب عمران خان کو 8 کیسوں میں چند منٹوں میں ضمانت مل سکتی ہے تو میرا کیس 8 سال سے کیوں لٹکا ہوا ہے؟ اگر ادارے آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو پھر پاکستان کا چلنا مشکل ہوگا، پاکستان میں سیاستدانوں کی نہیں دہشت گرد جتھے اور سیاست دانوں کی لڑائی ہے، میری قیادت پر قاتلانہ حملے ہوئے، جیل میں زہر دیا گیا اس کے باوجود کیا ہم نے مسلح جتھوں کو آواز دی؟ بیگمات کے کہنے پر فیصلے کرنے والے ججوں کا آج کے رویہ سے اندازہ ہوجاتا ہے، جسٹس صدیقی تو پہلے ہی بینچ بنانے کا طریقہ واضح کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عتیقہ اڈھو سے سے شراب کی بوتل نکلنے پر ازخود نوٹس ہوگیا اور علی امین گنڈا پور سے نکلی شراب کی بوتل سے شہد نکل آیا، ہم بھاگنے والوں میں سے نہیں اب ہم غلط فیصلے کرنے والوں کی ایک ایک چیز قوم کے سامنے لے کر آئیں گے، گاڑی میں حاضری لگوانے والا کل کو بنی گالہ میں ترازو لگانے کی فرمائش بھی کرسکتا ہے۔