بلاگ
Time 06 اپریل ، 2023

جسٹس کارنیلئس سے ناانصافی

اپنی اپنی انا کے اسیر سیاست دان اور جج تاریخ سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں۔سیاست دانوں کی نااہلی کے باعث جب جب سیاسی تنازعات ججوں کے سپرد ہوئے تو انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کو انصاف کا نام دیکر تنازعات سلجھانے کی بجائے مزید الجھائے اور فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کیا۔1954ءمیں کیا ہوا؟

گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو توڑ دیا تو معاملہ اعلیٰ عدالت میں پہنچا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے فوری طور پر نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے ڈالا۔ان کے ساتھی جج اے آر کارنیلئس نے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو مسترد کردیا اور اختلافی نوٹ لکھا۔ 

جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت نے جنرل ایوب خان کو مارشل لا کا راستہ دکھایا اور موصوف نے 1958ءمیں پاکستان کا پہلا آئین پامال کرکے مارشل لانافذ کردیا اور دو سو کیس میں جسٹس منیر نے ایک دفعہ پھر نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر مارشل لا کو بھی جائز قرار دے دیا۔جسٹس اے آر کارنیلئس نے ایک اور اختلافی نوٹ لکھا اور کہا کہ مارشل لا بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل نہیں کر سکتا۔

دوسو کا تعلق بلوچستان کے علاقے لورالائی سے تھا۔اسے ایک مقامی جرگے نے ایف سی آر کےتحت سزا دی تھی لیکن دو سو نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اس پر ایف سی آر کی بجائے 1956ءکے آئین کے تحت مقدمہ چلایا جائے لیکن جسٹس منیر نے قرار دیا تھا کہ مارشل لا نافد ہونے کے بعد آئین معطل ہو چکا ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منیر کو جنرل ایوب خان نے وفاقی وزیر قانون بنالیا۔

پھر ایوب خان نے پاکستان پر 1962ءکا صدارتی آئین مسلط کیا اور یہ آئین صرف آٹھ سال کے اندر پاکستان کو دولخت کرنے کا باعث بنا۔جسٹس منیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مفاد پرستی اور آئین دشمنی کا استعارہ بن چکے ہیں ۔4اپریل کو موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کو مستردکرتے ہوئے 14مئی کو انتخابات کا حکم دیا تو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے جسٹس عمر عطا بندیال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جسٹس منیر نہیں بنے بلکہ جسٹس کارنیلئس کے راستے پر چلے۔ 

پاکستان کی سیاسی تاریخ کو درست تناظر میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جسٹس عمر عطا بندیال واقعی جسٹس کارنیلئس کے راستے پر گامزن ہیں تو کیا ہم جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو جسٹس منیر کا جانشین قرار دے رہے ہیں؟کہیں ہم دانستہ یا نادانستہ تاریخ کو مسخ تو نہیں کر رہے ؟جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تقابل کرنے سے پہلے جسٹس منیر اور جسٹس اے آر کارنیلئس کو مزید پرکھ لیتے ہیں۔جسٹس منیر کا تعلق لاہور سے تھا۔ 

کارنیلئس آگرہ میں پیدا ہوئے تھے اور کیتھولک مسیحی ہونے کے باوجود قیام پاکستان کے حامی تھے ۔الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘میں ان کا ایک انٹرویو شامل ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ تحریک پاکستان میں قائد اعظمؒ کا ساتھ دیتے رہے اور 23مارچ 1940ء کی قراردادوں کی تشکیل میں انہوں نے بانی پاکستان کی معاونت کی۔ قائد اعظم ؒ نے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون اور جسٹس کارنیلئس کو پہلا سیکرٹری قانون بنایا تھا اور یہ قائداعظم ؒ سے قربت کا نتیجہ تھا کہ جسٹس کارنیلئس نے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے بار بار اختلاف کیا۔

افسوس کہ جسٹس منیر کی طرح جسٹس کارنیلئس بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے وزیر قانون بن گئے تھے لیکن آئین و قانون کیلئے انکی خدمات کو دیکھیں تو جسٹس کارنیلئس کا مقام بہت بلند ہے ۔اب ذرا ایمانداری سے فیصلہ کریں کہ جسٹس کارنیلئس کے راستے پر عمر عطا بندیال چل رہے ہیں یا قاضی فائز عیسیٰ؟

قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی عیسیٰ بھی قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی تھے ۔ماضی کی ہر حکومت قاضی فائز عیسیٰ سے ناراض رہی ۔میموگیٹ کمیشن کی رپورٹ کے باعث پیپلز پارٹی کی حکومت ان سے ناراض رہی۔ کوئٹہ بم دھماکے کیس میں انکی رپورٹ پر نواز شریف حکومت نے کھلے عام ان پر تنقید کی اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جنرل فیض حمید کا نام لکھ کر سیاست میں ان کی مداخلت پر تنقید کی۔فیض آباد دھرنا کیس میں ان کا فیصلہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کے لئے قابل قبول نہیں تھااور عمران خان حکومت کے ذریعہ ان پر ریفرنس دائر کروا کر حکومت نے ان کا میڈیا ٹرائل کیا۔

اس ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تو عمر عطا بندیال نے قاضی فائز عیسیٰ کا نہیں بلکہ حکومت وقت کے مؤقف کا ساتھ دیا۔ گزشتہ سال اپریل میں عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کی تو عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ مسترد کر دیا۔ان پانچ ججوں میں اعجاز الاحسن اور منیب اختر کے علاوہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل بھی شامل تھے ۔کسی جج نے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا لیکن 4اپریل کو جس بینچ نے 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کا حکم دیا اس بینچ سے جسٹس مندوخیل نہ صرف علیحدہ ہو گئے بلکہ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس بندیال کے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔یہ بینچ ابتدا میں 9رکنی تھا جو سکڑ کر 3رکنی رہ گیا اس لئے اس کا فیصلہ انتہائی متنازعہ ہے ۔

جسٹس بندیال نے 14مئی کو الیکشن کا حکم دے کر ایک 6رکنی بینچ تشکیل دیا اور اس میں جسٹس مظاہر نقوی کو بھی شامل کر دیا۔اس بینچ نے قاضی فائز عیسیٰ کے ایک فیصلے کو غیر موثر کر دیا۔مظاہر نقوی کے خلاف کئی سال سے کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں ۔

کچھ سال پہلے بھی ان کے خلاف ایک ریفرنس دائر ہوا تھا جس کی سماعت نہ ہوئی ۔مظاہر نقوی کی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے الطاف حسین کی تقاریر اور بیانات پر پابندی لگائی۔انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کو غیر موثر کیا۔جسٹس بندیال ایک ایسے متنازع جج کی پشت پناہی کر رہے ہیں جس نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو ریلیف دیا۔کیا جسٹس بندیال کو جسٹس کارنیلئس کا جانشین قرار دینا ناانصافی نہیں ؟

جہاں تک آئین کی بالادستی کا معاملہ ہے تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن میں الیکشن ضرور ہونا چاہئے اور اس معاملے پر اگر فل کورٹ بن جاتا تو وہ بھی نوے دن میں الیکشن کی حمایت کرتا لیکن بندیال صاحب اپنے کچھ ساتھی ججوں کےساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔جس طرح عمران خان اور نواز شریف ایک دوسرے سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں اسی طرح بندیال اور قاضی فائز عیسیٰ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ۔سیاست دان اور جج ایک دوسرے کے رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس لئے آج کے ججوں میں سے زبردستی کسی جسٹس کارنیلئس کو تلاش نہ ہی کریں تو بہتر ہے ۔یہ جسٹس کارنیلئس کے ساتھ ناانصافی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔