ریاست تتر بتر ہونے کو؟

وطنی صورتحال پردلجمعی سے افسردہ، مایوس ہوں ۔ بے کیفی اور پریشانی ضرور ، حیرانی نہیں کہ پچھلے دس سال کی محنت شاقہ سے جُڑیں وارداتیں، آج سیاسی عدم استحکام کو مستحکم کر چکی ہیں ۔ 2014 سے ’’آنے والے طوفان ‘‘پر آگاہ رکھا، واویلا کیا، بے سُود رہا۔ صدبہ صحرا، نقار خانے میں بھلا طوطی کی آواز چہ معنی؟

دو رائے نہیں کہ70 سال سے ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ کے منہ کواَن گِنت وزرائے اعظم کاسیاسی خو ن لگ چُکاہے۔ ہر واردات عدم استحکام دے گئی ۔ آج پھر ایک مرتبہ وزیراعظم کے سیاسی خون کا وقت آن پہنچا ہے؟کیا پھر مملکت کا امتحان مقصود ہے؟

سپریم کورٹ (2\3) کے فیصلے پرکل رات تحریک انصاف کا یوم تشکر منانا بنتا ہے ۔ اِس سے پہلے اتوار 30 اکتوبر2016 کو اسلام آباد لانگ مارچ کی ناکامی پر اُس وقت کے سینئر ترین جج آصف سعید کھوسہ نے عمران خان کو پیغام بھجوایا کہ’’مایوس نہیں ہونا، مایوسی کُفر ہے، میں جو ہوں، پانامہ پر سُوموٹو لیتا ہوں‘‘۔ 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں جمع ہوئے چند سو افراد کے عظیم الشان اجتماع میں سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا گیا۔ عمران خان پچھلے چند مہینوں سے جتھوں کیساتھ جس انصاف کے حصول کیلئے سینہ سپر ہیں، اُس کی حوصلہ افزائی 2014 تا 2023 سپریم کورٹ ہی نے توکی ہے۔

وطن عزیزآج جہاں کھڑا ہے یہ گُتھی بڑی عرق ریزی سے اُلجھائی گئی ،کسی طور سُلجھنے کو نہیں ۔ ذمہ داروں کا تعین اگلی کئی دہائیوں تک نہ ہو پائے گا ۔ ملک آج ایک بار پھر بند گلی میں ، بحران کا حل آئین میں نہ ماورائے آئین اقدامات میں۔ سپریم کورٹ کا موجودہ متنازع فیصلہ ،واحد وجہ وجود ، چیف جسٹس کا انتظامی انچارج ہونا ہے۔ وطنی بگاڑ اور افراتفری کے عمل کو تیز کرچُکا ہے۔ کیس کا پس منظر، لاہور میں تعینات ایک پولیس آفیسر کی خدمات جب وفاق نے واپس لینے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو بذریعہ عدالتی حکم روک دیا۔ دو رُکنی (جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی) بینچ نے کیس کے دوران پنجاب میں الیکشن کرانے پر سوموٹو لیا، چیف جسٹس کو لارجر بینچ بنانے کا کہا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں ججز ہر متنازعہ سیاسی کیس میں چیف صاحب کے دائیں بائیں تسلسل سے براجمان رہے ہیں ۔ کمالِ شفقت سے جب 9 رُکنی بینچ تشکیل دیا گیا تو ملک کے طُول و عرض میں پہلے سے 5\4 کے فیصلے کی بازگشت سُنائی دی ۔

شومئی قسمت، چند دنوں میں ایک جج صاحب کی دیانت اور کردار پر اُنگلیاں اُٹھیں تو بینچ سے جج صاحب کا علیحدگی کے علاوہ چارہ نہ رہا۔ وجہ سامنے لائی گئی کہ’’چونکہ دو ججوں نے سوموٹو کی سفارش کی اسلئے وہ 9 رُکنی بینچ کاحصہ نہیں رہے‘‘۔ احتیاط لازم رہی کہ ’’ترازو کا طے شُدہ توازن‘‘برقرار رکھنے کے لئے ساتھ ہی دو ایسے ججز جن کا کہنا تھاکہ 184(3) کا کیس نہیں بنتاعلیحدہ کر دیا گیا۔یوں بینچ محدود ہو کر5 کا رہ گیا۔ اُسی وقت ہر زبان زدعام پر ایک ہی بات کہ’’طے شُدہ توازن‘‘برقرار رکھنا ہے۔

اُسی دوران جب کہ ایک طرف پارلیمنٹ کے اندر چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو محدود کرنے پر قانون سازی جاری تھی ،قاضی فائز عیسیٰ کے دو رُکنی بینچ نے 184(3) کے استعمال کیخلاف ایک حکم نامہ جاری کیا کہ’’سوموٹو نوٹس پرتا وقت کارروائیاں روک دی جائیں جب تک اِس کا قانون نہیں بن جاتا‘‘۔ چونکہ جسٹس امین الدین بینچ کا حصہ تھے ، سوموٹو پر اُنہوں نے کارروائی جاری رکھنے سے انکار کر دیا اور سوموٹو کو خارج کرنے کا کہا۔اگلے دن جمال خان مندوخیل نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کے بینچ کے فیصلے کی روشنی میں سوموٹو نوٹس خارج کر کے 4\3کا تفصیلی فیصلہ لکھ ڈالا۔ 9 رُکنی بینچ مختصر ہو کر 3 رُکنی ضرور رہ گیا ۔ کمال بے نیازی سے3 رُکنی بینچ 3\2 سے پاکستان کی چولیں ہلانے والا فیصلہ دینے میں نہ ہچکچایا۔جو فیصلہ سُنایا گیا توقع کے عین مطابق، پہلے سے چرچے چار سُو تھے۔

مزید حیران کُن، جہاں 3 ججز نے الیکشن کروانے کا حکم صادر فرمایا وہاں سپریم کورٹ نے ملکی ایگزیکٹو اور الیکشن کمیشن کا DE JURE اور DE FECTO ہر طرح کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ 3 رُکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کا ہونا جو 5 رُکنی بینچ کا حصہ نہ تھے ایک اور وجہ نزاع بنا، شکوک و شبہات مستحکم ہوئے ۔ فیصلے نے پاکستان میں موجود افراط و تفریط اور دھینگا مشتی کا ماحول مزید گرما دیا۔ حکومت نے فیصلہ یکسر مسترد کردیا۔ عنقریب سپریم کورٹ بمقابلہ حکومت آمنے سامنے، روح فرسا مناظر دیکھنے کو ملنے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس صاحب کا یہ کہنا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ پر بٹھا کر انہوں نے خاموش پیغام دیا ہے ۔ قطع نظر کہ خاموش پیغام کا اشارہ کس کے لئے یااس سے پہلے پنجاب حکومت کو ختم کرنے کے لئے اِنہی تین ارکان نے جب فیصلہ سُنایاتو ساتھی جج نے برملا کہاکہ’’یہ ماورائے آئین قدم ہے، آئین دوبارہ لکھنا ہے‘‘۔

چیف جسٹس صاحب نے اس موقع پر مرضی کے جج نہ ملنے پر تبصرہ کیا کہ’’ پنجاب میں حکومت ختم ہونے کا بدلہ لیا گیاہے‘‘۔ مجھے نہیں معلوم چیف صاحب کے پہلے والے اور یہ ریمارکس کوڈ آف کنڈکٹ میں آتے ہیں یا نہیں، البتہ ان فیصلوں نے مملکت کا باجا بجا دیا ہے۔

آج سپریم کورٹ دو واضح گروپس میں تقسیم، ایک چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں اور دوسرا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خیالات کا حامی ہے۔ سپریم کورٹ اندرون دھینگا مشتی زوروں پر، تقسیم قریہ قریہ زیر بحث ہے۔ 3ججز کا فیصلہ مانا جائے یا 4 ججز کا؟ 4 ججز کا سوموٹو خارج ہونے پر اصرار جبکہ 3 ججز الیکشن کروانے پر مصر۔

15 رُکنی سپریم کورٹ میں کون کہاں کھڑا ہے؟ 3 رُکنی فیصلے کو باقی 12 ججز میں سے کِتنوں کی حمایت حاصل ہے ؟ ملک کے طول و عرض میں جہاں تین رُکنی بینچ پر عدم اعتمادہے وہاں فُل کورٹ کی استدعا ساتھ منسلک ہے۔ آسان حل تو فُل کورٹ میں تھا۔چیف جسٹس صاحب نے فُل کورٹ کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنایا ؟ شایدوہ فُل کورٹ کا اعتماد کُھو چکے ہیں؟ ایک بات طے، اس فیصلے کو نافذ کیا تو خانہ خرابی نہ کیا تو خانہ بربادی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے جو شُعلہ نکلا وہ جوالہ بننے کو، مملکت کو بھسم رکھے گا۔ حتمی بات ، ریاست پوائنٹ آف نو ریٹرن پر، یااللہ مدد۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔