آرمی چیف کا اہم خطاب

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ہفتے کے دن کا کول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے اہم خطاب کیا۔ یہ خطاب موجودہ حالات کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں ضروری اور قابل توجہ معاملات کی نہ صرف وضاحت کی بلکہ ریاست پاکستان کے موقف کا اعادہ بھی کیا۔ کشمیر کے بارے میں پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کشمیری بہنوں اوربھائیوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔

 بھارت مقبوضہ کشمیر میں سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق پامال کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں قرار دادوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ظلم و جبر کے ذریعے کشمیریوں کی حق خودارادیت کو دبا رہا ہے۔ آرمی چیف نے اس طرف عالمی برادری کی توجہ دلاتے ہوئے واضح کیا کہ علاقائی امن کیلئے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کیلئے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوںنے کشمیریوں کو یقین دلایا کہ پاکستان کشمیریوں کی تاریخی جدوجہد اور حق خودارادیت کے حصول کیلئے ہمیشہ انکے ساتھ کھڑا رہیگا۔

آرمی چیف کے اس بیان پر بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے جبکہ کشمیریوں کو اس بیان سے نیا حوصلہ ملا ہے۔ آرمی چیف نے افغانستان میں استحکام پاکستان کی سلامتی کیلئے بنیادی حیثیت کا حامل قراردیا۔آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے ریاست سے وفاداری اور عوام کی حفاظت و سلامتی کو مقدس قرار دیا۔

 ان کا خطاب ان عناصر کیلئے واضح پیغام ہے جو پاک فوج اور عوام کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرکے خلیج پیداکرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نےعوام کو یقین دلایا کہ عوام اور پاک فوج کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ہر حال میں برقرار رہے گا۔ اور کیوں نہ ہو کہ پاک فوج عوام کی ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں پاک فوج نے اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کا جس طرح ساتھ دیا ہے اور نامساعد حالات میں اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کی ہے وہ عوام سے زیادہ کس نے دیکھا ہے۔

پاکستانی عوام نہ صرف پاک فوج کا احترام کرتے ہیں بلکہ وہ پاک فوج سے عقیدت کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ البتہ بعض ملک دشمن عناصر بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں ایک عرصہ سے منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں بلکہ پاک فوج اور عوام کے درمیان فاصلہ اور خلیج پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بیرونی دشمنوں کے آلہ کار کبھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اور نہ ہی ریاست اور سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی ان عناصر کی کوششوں کو کامیاب ہونے دیا جائے گا۔

جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے حیرت کی بات ہے کہ ایسے حالات میں انتخابات کیسے ممکن ہیں۔ فوج دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ روزانہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں فوج ریاست کی حفاظت و سلامتی کیلئے دہشت گردوں کو کچلنے اور ان کا صفایا کرنے میں مصروف ہے اور اس مقصدکیلئے ہر روز جانوں کے نذرانے پیش کررہی ہے تو سوچنا چاہئے کہ انتخابات اہم ہیں یا ملکی سلامتی اور حفاظت ۔ دوسری طرف ملک سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔

 ایسےمیں انتخابات پر اربوں روپے خرچ کرنا کیا مناسب ہے؟ یہ تو سیاست نہیں بلکہ تماشا ہے کہ پہلے خود اسمبلیاں توڑیں اب ایک طرف ان ہی اسمبلیوں کو پھر بحال کرنے کیلئے عدالت کا رخ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف ان ہی اسمبلیوںکیلئے انتخابات کا واویلا کیا جارہا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے پہلے قومی اسمبلی سے از خود استعفے دیئے گئے اور عدالت جاکر ان استعفوں کی منظوری کیلئے درخواستیں دی جاتی رہیں ،یہ اس ملک اور قوم کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے، یہ مذاق اب بند ہونا چاہئے۔

اپوزیشن خود کئی بار کہہ چکی ہے کہ سیاستی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں اور سیاسی عدم استحکام بھی خود پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ جا ن بوجھ کر کیا جارہا ہے۔ ’’ہم کوئی غلام ہیں اور ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کے نعرے لگانے والے ان ہی امریکیوں سے ظاہری اور خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جو لوگ شفاف انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے ،اب وہ صرف انتخابات کرانے پر کیوں زور دے رہے ہیں۔ شفاف انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات بنیادی ضرورت ہیں اگر انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات ہوئے تو ان کے نتائج کون اور کیسے تسلیم کرے گا۔؟

 صاف نظر آتا ہے کہ بغیر اصلاحات کے انتخابات کے بعد ملک ایک اور بحران کا شکار ہوگا۔ انتخابی اصلاحات بھی سیاسی اور معاشی استحکام سے مربوط ہیں۔ اگر موجودہ معاشی، سیاسی اور امن و امان کی بحرانی صورت برقرار رہتی ہے تو سال رواں میں نہ انتخابی اصلاحات ممکن ہوں گی اور نہ ہی انتخابات کا انعقاد ہوسکے گا۔ ان مسائل کا حل غیر سیاسی قیادت کو سامنے لانے میں مضمر ہے۔ جس کی مدت کم از کم سات سال ہو۔ تب ہی ہر بحران کا خاتمہ ہوسکے گا۔ ملک دشمن عناصر اور پاک فوج کو کمزور کرنے کی کوششیں کرنے والوں کا محاسبہ بھی بہت ضروری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔