وطن عزیز! بلند الاؤ میں

تحریک انصاف نے ریاست پر کاری وار کیا، خدا کرے وطن عزیز جانبر ہوجائے؟ایک بدقسمت دن، وطنی طول و عرض میں ہیبت ناک مناظردیکھنے کو ملے۔ تصور میں نہ تھا، قومی حُرمت، تقدس، وقار، عزت اور طاقت کے استعاروں کو پہروں روندا جائے گا۔ 

میں وہ بدقسمت پاکستانی، جس پر سانحہ 16 دسمبر 1971 بیت چُکا ہے ، آج تک صدمے سے جانبر نہیں ہو پایا۔ کیا معلوم تھا، منحوس تاریخ 52 سال بعد 9 مئی کو دُہرائے گی۔ وطنی بدنصیبی! اس دفعہ بیرونی دشمنوں نے انگڑائی نہیں لی کہ اُنکا ایجنڈا بخیرو خوبی سیاسی لبادہ اوڑھے ’’مقبول ترین‘‘لیڈر نے پایہ تکمیل تک پہنچاڈالا۔

برسوں سے تکرار’’وطن عزیز بھیانک سمت جانب گامزن ہے‘‘۔ دلجمعی سے اسٹیبلشمنٹ ، سپریم کورٹ اورعمران خان کی شراکت داری نے پچھلے دس سال سے مملکت کیخلاف تندہی سے جرائم سرزد رکھے۔ آج اُس کی سزا پوری قوم بھگتنے کو ہے۔ پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے مالی بدعنوانی کیس ( قومی خزانہ کو 50 ارب روپے کا ٹیکہ) میں نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا۔

 یاد رہے، گرفتاری جہاد کشمیر میں نہ امربالمعروف کی ترویج میں، مالی بدعنوانی کیس میں پکڑے گئے۔ قول اور عمل کا تضاد، اپنے اوپر کسی بھی الزام کی صفائی دینے سے ہمیشہ سے انکاری ہیں۔ اپنی گرفتاری پرملک کے طول و عرض میں مقلدین اور حامیوں کو کال دے ڈالی ،’’جوق در جوق آئینی اور عسکری اداروں پر یلغارکر دو‘‘۔ ممکنہ حملوں اور ٹکراؤ کی ایک عرصہ سے منصوبہ بندی تھی۔

واہ میرے مالک تیری شان ! کل جب نیب’جج بشیر‘‘ کے سامنے پیش ہوئے ،دُہائی دی کہ’’ چھوٹے گندے کمرے میں بند رکھا گیا، 24 گھنٹے سے باتھ روم نہیں جا سکا‘‘۔ وہی جج بشیر جس نے نوازشریف کو 10 سال اور مریم نواز کو 7 سال جیل کی سزا سُنائی، آج عمران کی ضمانت اور قسمت کا فیصلہ کرنے کو تھا۔ عمران جب اقتدار سے باہر ہوئے تو میرے بیٹے حسان خان (عمران خان کے سحر میں گوڈے گوڈے گرفتار) نے عمران کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پوچھا، میرا جواب، ’’اگلے چھ ماہ میں تمہارا لیڈر نہیں یا اسٹیبلشمنٹ نہیں‘‘۔

 سادہ لوح گمراہ مقلدین دلجمعی سے ایمان لے آئے کہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ پاش پاش ہونے کو ہے۔ 6 ماہ کی بجائے 13 ماہ تو ہوگئے، میرا کہا من و عن صحیح ثابت ہونے کو ہے۔ عمران خان نے اقتدار جاتے دیکھا تو اپنی زمیں بوس ساکھ کو بحال کرنے کیلئے ایک جھوٹا بیانیہ تراشا ۔ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے پاکستانی سیاست میں وِلن ، اُنکے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکانا اُکسانا آسان اور مقبولیت کو چار چاند لگنا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ سیاسی مقبولیت سے مستفید ہونے کیلئے الیکشن جبکہ عرصہ سے بتا رہا ہوں الیکشن دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔

اگرچہ عمران خان اقتدار سے محرومی کے ڈیڑھ ماہ تک الیکشن بارے اُمیدو بیم کی کیفیت سے دوچار رہے۔ ملک گیر مہم چلائی، درجنوں جلسے کر ڈالے۔ جلسوں میں سرعام دباؤ ڈالاجبکہ اندر کھاتے رابطے اور مِنت ترلے ، دونوں بیک وقت روبہ عمل کہ ایسی واردات کو تریاق سمجھ بیٹھے تھے۔ 25 مئی کے لانگ مارچ کی شاندار ناکامی کے بعد موصوف کو بھی اندازہ ہو گیا کہ الیکشن نہیں ملنے کو۔ تب ہی تو اپنے تئیں اسٹیبلشمنٹ کو تاریخی سبق سکھانے کی ٹھانی۔

اقتدار سے علیحدگی کے بعد 9مئی تک انواع واقسام کے ذرائع ابلاغ قبضہ استبداد میں رہے۔ جارحانہ سیاست کاہمیشہ سے بے تاج بادشاہ تھا۔ دونوں مدوں میں مددگار ماحول بھی ملا۔ دوسری طرف موثر سیاسی حکمت عملی سے کوسوں دور ، حکمت دانش سے عاری نہ ہی دلچسپی، کیسے سمجھ پاتے کہ پہلی دو مدوں کے زور پر کریش لینڈنگ کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آنا ۔ 

بظاہر اپنے مصاحبین اور ورکرز کو بتلاتے نہیں تھکتے تھے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ کے چھکے چھڑوا چُکا ہوں ، زمیں بوس ہونے کوہے‘‘۔ میری حتمی رائے تب بھی اور اب بھی ، بخوبی جانتے تھے کہ’’بہت بڑا معرکہ مارا تو وطن عزیز کو چند روز کیلئے کشت و خون میں نہلایا جا سکتا ہے‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ شیخ مجیب ، الطاف حسین یا الذولفقار کی طرح خانہ جنگی کی صورت میں بھارت کیطرف ’’نگاہ بلند سُخنـ‘‘ تھی یا نہیں؟ بہرحال پرسوں جو کچھ بھی ہوا عمران خان صاحب کی عین تیاری اور نپی تُلی پلاننگ کے عین مطابق تھا۔ میرے نزدیک عمران خان تحریک انصاف کو خود کُش جیکٹ پہنا کر خود گرفتار ہوگئے۔

عسکری قیادت کو دادو تحسین کہ اپنے وقار ، کور کمانڈر ہاؤس، GHQ پر حملہ برداشت کر لیا، گولی نہیں چلائی۔ انسانی جانوں کو محفوظ رکھا۔آفرین!ISPR کی پریس ریلیز میں ہوش اور حکمت کو اپنی تدبیر بتایا ۔ عمران خان خوش قسمت کہ اقتدار سے علیحدگی پر پاکستانی فوج کاتکلیف دہ کردار جنرل باجوہ اپنے مفادات کیلئے ملکی سالمیت اور ادارے کی ساکھ کو داؤ پر لگا کر پہلے ساڑھے سات ماہ عمران خان کا مددگار بنارہا، عفریت بننے دیا۔ جنرل باجوہ نے آخری دو ماہ اُسی تھالی میں چھید کیا جس میں کھایا ۔

 اپنے ہی ادارے خصوصاً آنے والے سربراہ کیلئےناموافق حالات پیداکئے۔ ماتحت جرنیل عمران خان کے استعمال میں رکھے، یوں عمران خان کو خطرناک بناڈالا۔ موجودہ اسٹیبلشمنٹ چند ماہ تو جنرل باجوہ کے بچھائے کانٹے ہی چُنتی رہی۔ پچھلے چند ہفتوں سے سارے سیاسی تجزیہ نگار متفق کہ اسٹیبلشمنٹ ’’پروجیکٹ عمران خان ‘‘کو DISMANTLE کرنے پر تُل چُکی ہے، کسی وقت بھی EXECUTION شروع ہو جائے گی ۔

 چنانچہ پَرسوں کی گرفتاری نے حیران کیا نہ پریشان ۔ عمران خان کی حکمت عملی کہ مقلدین ہر شہر میں فوج کے سب بڑے استعاروں پر پِل پڑیں گے۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی بخوبی اندازہ تھا ۔ چنانچہ پُرتشدد جتھوں کو بغیر کسی رُکاوٹ کے داخل ہونے دیا گیا۔ انسانی جانوں کا نقصان نہیں ہونے دیا۔ ایک ایک لمحہ کی ، ایک ایک واقعہ کی اور ایک ایک کردار کی عکس بندی کر لی گئی ہو گی۔ تحریک انصاف کی ’’جنگی صلاحیت‘‘اور موثر ورکرز کا ڈیٹا بنالیا ہو گا ۔شک نہیں، آنے والے دنوں میں عمران خان کی مقبولیت اور افادیت کے مضمرات کی ترویج ہونی ہے۔ میسولینی، ہٹلر ، مجیب الرحمان ، الطاف حسین سے مماثلت رہنی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ ماننا ہو گا کہ اس دنگے فساد اور دھاوے کا سارا ملبہ PTI پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یاد کرو وہ وقت جب 2014 میں وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد پر دھاوا بولا گیا یا 2016 جاتی امرالاہور نوازشریف کے گھر پر چڑھائی ہوئی تو طاقت اور ہمت اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ نے ہی تو دِلائی تھی۔

اسٹیبلشمنٹ سے مودبانہ گزارش اتنی کہ آج کا مشکل ترین کام اور اشد ضرورت سیاسی یکجہتی اور یگانگت پیدا کرنا ہے۔ عمران خان کے مقلدین کو رام کرکے اور قومی دھارے میں واپس لا کر ہی سیاسی استحکام ممکن رہنا ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد اس وقت قوم کے اعتماد سے یکسر محروم ہے۔ دیدہ ور کی غیر موجودگی میں، اجتماعی شعور ہی سے ممکنہ استحکام اور حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ملک نازک ترین صورتحال سے دوچار،کیا موجودہ بحران میں موجودہ عسکری قیادت قومی یکجہتی کے فروغ میں کوئی غیر معمولی کردار ادا کر پائے گی؟ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔