18 مئی ، 2023
کانز کی ایوارڈ یافتہ مختصر دورانیے کی پاکستانی فلم ’نور‘ ایک ایسی بچی کی کہانی ہے جسے نظر کمزور ہونے کی وجہ سے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔
فلم کی کہانی معاشرے کے ان رویوں کی عکاسی کرتی ہے جن کا سامنا اکثر بینائی کمزور ہونے والے افراد کو ہوتا ہے۔ ایسے افراد پر لوگ تبصرے کرتے بھی نہیں گھبراتے۔ آپ نے اپنے اردگرد بھی چشمہ پہننے والوں کو اس طرح کے حالات سے گزرتے دیکھا ہوگا جب لوگ انہیں مختلف ناموں سے مخاطب کرنا نارمل سمجھتے ہیں اور عینک پہننا انہیں عیب محسوس ہوتا ہے۔
نور کی کہانی میں بھی ایسے ہی کردار دکھائے گئے ہیں۔ فلم کا مرکزی کردار نور، 8 سالہ تنیشا نے نہایت خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ چائلڈ آرٹسٹ ہونے کے باوجود ان کا تلفظ اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کمال ہے جبکہ اداکار عمیر رانا، نور کے والد کے کردار میں دکھائی دیے ہیں جنہیں اپنی بیوی اور بچی کے عینک لگانے پر اعتراض ہوتا ہے اور ثروت گیلانی نور کی استانی کے کردار میں نظر آئی ہیں۔
فرح عثمان کی لکھی اس کہانی میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جو دیکھنے والوں کو اسکرپٹ کا اضافی حصہ معلوم ہو۔
جیو ڈیجیٹل سے خصوصی گفتگو میں فرح نے بتایا کہ انہوں نے اس کہانی سے پہلے بھی ایک کہانی لکھی تھی جس میں مرکزی کردار تو ایک 8 سالہ بچی کا ہی تھا لیکن اس میں ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کے اتار چڑھاؤ نہیں تھے۔ جب دوسری مرتبہ میں نے اسکرپٹ لکھا تو اس کی کہانی کافی مضبوط اور بہتر محسوس ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بلکل اندازہ نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی کہانی کانز تک جائے گی اور ’نور‘ کو کانز ورلڈ فلم فیسٹیول میں بہترین صحت کی فلم کا ایوارڈ مل جائے گا۔
فرح کا کہنا تھا کہ وہ ساس بہو کی کہانیوں سے کافی ٹائم پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر کچھ مختلف لکھنے کا تہیہ کر چکی تھیں البتہ اگر اب بھی کوئی انہیں کچھ ہٹ کر بنانے کا کہتا ہے تو وہ ضرور اس پر کام کریں گی۔
ڈائریکٹر عمر عادل کو ’نور‘ کی تکمیل میں 2 سے 3 ماہ لگے لیکن کانز تک پہنچنے میں بھی اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑا۔
کراچی کے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس میں فلم کی اسکریننگ کی تقریب میں ڈائریکٹر عمر عادل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم گزشتہ دس سال سے شعبہ صحت اور ترقی میں کام کرررہے ہیں جب فرح اور مجھے ’سائٹ سیورز‘ اور’ وائٹ رائس‘ نے اس کاز کیلئے چنا تو انہوں نے ہمیں شارٹ فلم بنانے کا کوئی آئیڈیا نہیں دیا تھا۔
یہ ہمارا پلان تھا کہ ہم اس کہانی کو یا اس پیغام کو شارٹ فلم کی شکل میں ڈھالتے ہیں کیونکہ مختصر فلموں کی آڈیئنس ذرہ مختلف اور زیادہ ہوتی ہے۔
عمر نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ انہوں نے سوچا نہیں تھا کہ فلم کانز تک جائے گی، کیونکہ اس فلم فیسٹیول میں پہلی مرتبہ آن لائن ایڈیشن کی کیٹیگری متعارف کرائی گئی تھی اور ہم پہلی بار ہی اس کیٹیگری میں ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ آرٹسٹس سے کام کروانا ذرا مشکل تھا لیکن یہ ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا۔
2017 میں عمر عادل، فلم ’چلے تھے ساتھ‘ کے بھی ڈائریکٹر رہ چکے ہیں جو باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکی البتہ 17 منٹ پر مشتمل ’نور‘ نے عمر کیلئے کامیابی و شہرت کے کئی در وا کردیے ہیں۔
تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ ثروت گیلانی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں میں مختلف کام کرتی ہوں لیکن مجھے یہاں تک پہنچنے میں 20 سال لگے، میں بھی ساس بہو کے ڈراموں میں کام کرتی رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خودمختار سنیما دنیا بھر میں اپنی پہچان بنارہا ہے یہ دیکھ کر میں اللہ کی شکر گزار ہوں کیونکہ یہاں بننے والی کہانیاں مقاصد و موضوع کے تحت بنائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نور کی کہانی بھی ایسے ہی ہے جس میں نظر کی کمزوری (آئی وئیر اسٹگما) کو دکھایا گیا ہے، میں بحیثیت والدہ یہ سمجھ سکتی ہوں کہ کتنے بچے اس مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں اور انہیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے ’چشمش آگیا‘، ’چشماٹو ہے‘، ہم نے لوگوں کو ایسی باتوں پر ہنستے دیکھا ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اس بچے پراس بات کا کیا اثر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت والدہ اور بحیثیت فنکار میں نے اس فلم میں کام کیا کیونکہ اس کا پیغام بہت خوبصورت اور سادہ ہے۔
اداکارہ نے جیو ڈیجیٹل کو اس سوال پر کہ وہ ناظرین کو دوبارہ ڈراموں میں دکھائی دیں گی؟ جواب دیا کہ میں بہت سارے کمرشلز میں نظر آؤں گی۔ ناظرین مجھے زیادہ یاد نہ کریں، میں جلد واپس دکھائی دوں گی۔
سی پرائم کی پیشکش مختصر فلم ’نور‘ میں گانے، ایکشن سینز اور کامیڈی تو ناظرین کو نہیں ملے گی البتہ دلچسپ موضوع دیکھنے والوں کو بوریت محسوس نہیں ہونے دے گا۔