’’عمران خان، ہائے! تنہائی نہ پوچھ‘‘

زمان پارک میں ہو کا عالم، سناٹا، ’’کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ‘‘۔ جیو کی لائیو ٹرانسمیشن میرے سامنے،’’5\6 افراد کی گنتی بھی مشکل ہے‘‘۔ دوسری طرف آخری خبریں آنے تک، زمان پارک میں آج بہت بڑے پولیس آپریشن کی تیاری جاری ہے۔

تفصیلات وجوہات اپنی اپنی، یقین ِکامل تھا عمران خان کا انجام بھیانک ہے۔ تاریخ انسانی ایسے قائدین کے اذکار اور انجام سے بھری پڑی ہے۔ عبرت ناک مناظر سامنے، پچھلے سو سال میں میسولینی، ہٹلر، شیخ مجیب الرحمان، زندہ تابندہ الطاف حسین وغیرہ سیاست، خصوصیات، اوصاف حمیدہ، متشددانہ سیاست اجزا مشترک، انجام بھی ایک جیسا رہا۔ عمران خان کی سیاست اور اُنکے انجام کو بھیانک رہنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ بشرط یہ کہ وہ خود مائل ہوں اور بلا چون و چرا تعاون کریں۔ 

پچھلے ہفتے کالم میں صراحت کیساتھ اپنے بیٹے حسان خان سے اپریل 2022 میں کی گفتگو دُہرائی، ’’6ماہ بعدعمران خان کی سیاست کا ملیا میٹ اور اگر بچ گئے تو پاک فوج (خاکم بدہن) تتر بتر ہو گی‘‘۔ 6 ماہ کی بجائے 13 ماہ لگے، جس انجام کی پیشں گوئی کی تھی، آج وہ سامنے ہے۔ قومی بدقسمتی عمران خان نے چاہنے ماننے والوں (اکثریت اندھا دھند نوجوان مقلدین کی) کے دل و دماغ میں یہ بات رَچا بسا دی کہ ’’فوج کا خاتمہ بالخیر تحریک انصاف کے مبارک ہاتھوں سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچے گا‘‘۔

 عمران خان کی تقاریر نے ذہنی تربیت کی۔ جب سیاسی تناؤ بڑھا یا نام نہاد ’’ریڈ لائنز‘‘ کراس ہوئیں، انصافی کارکن وارفتگی کیساتھ عسکری عمارات، تنصیبات کی طرف دیوانہ وار لپکتے نظر آتے۔9 مئی کو جو کچھ ہوا حیرت ہوئی نہ ہی عمران کے اطمینان اور تالیف پر پریشانی۔ ایک سال کی تیاری کا منطقی نتیجہ یہی کچھ رہنا تھا۔

وطنی بد قسمتی، 70سال سے ریاست کا بناؤ اس اُصول پر کہ استحکام کیلئے مضبوط فوج ضروری ہے۔70 سال کی کھینچا تانی سے رہنما اُصول جزو لاینفک بن گیا۔ ریاست اور فوج ایک دوسرے سے باہمی جُڑ (INTERTWINED) گئے۔ اس اُصول کی ڈھال میں اسٹیبلشمنٹ نے وطن عزیز کی سیاست کو ہتھیانے کی ٹھانی۔ اصل میں ایک ذاتِ مقدسہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا آبِ حیات تھا۔ 

’’افواج پاکستان کا سیاست کو اپنا دستِ نگر بنانا، مملکت کو کمزور رکھنے کا آزمودہ فارمولا بنا‘‘۔ ماضی کا اجمالی جائزہ، ذہن سُن ہو جاتا کہ خواجہ ناظم الدین کی بر خاستگی کے بعد سے وزیراعظم شہباز شریف کی تخت نشینی تک، ایک وزیراعظم کا استثنیٰ نہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر مسند اقتدار پر بیٹھا ہو یا پھر اُس کو اقتدار سے علیحدہ نہ کیا ہو۔ ایسا رہنما اُصول کہ ریاست کا استحکام کسی ایک ادارے کا مرہون منت رہے۔ میرے لئےرُوح فرسا تھا۔

 عسکری ادارے کامسئلہ کہ کمانڈر مطلق العنان اور سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔ جب سربراہ بنتا ہے، تو ضروری نہیں کہ بے پناہ طاقت کا بوجھ اُٹھانے کی استعداد ہر چیف کے پاس ہو ۔ دُنیا کی چوتھی بڑی فوج اور اُسکی سربراہی ضروری نہیں کہ اپنے آپ کو اور فوج دونوں کو MANAGE کر پائے۔ چنانچہ بے پناہ طاقت کا نشہ کہ کمانڈ سنبھالتے ہی اپنے آپ کو ادارہ کا جزو لاینفک سمجھ لیتا ہے۔ جنرل ایوب خان سے جنرل باجوہ تک (ایک آدھ کو چھوڑ کر) جس نے بھی کمان سنبھالی، فوراً ٹھان لی کہ آخری سانس تک منصب سے جُڑے رہنا ہے۔ وجہ صاف ظاہر، منصب غیر معمولی طاقت سے متعارف کراتا ہے، مطلق العنانی (ALMIGHTY) کے سارے لوازمات رکھتا ہے۔ محدود طاقت، محدود ذہنی استعدادلا محالہ ادارے کیلئے بھی پُر خطر ثابت ہوتی ہے۔

تلخ تجربوں کی بدولت، فوج کے سیاسی رول اور مداخلت کیخلاف اپنی آواز اور قلم کو توانا اور بھرپور رکھا۔ عقیدہ ایک ہی راسخ، پاکستان کے استحکام اور سالمیت کیلئے آئین اور سویلین بالا دستی ہی تریاق ہے۔ آج جب افواج پاکستان پر تحریک انصاف کی قیادت اور پاکستان دشمن حملہ آور ہوئے تو مملکت تتر بتر ہوتے نظر آئی۔ فیصلہ تکلیف دہ ضرور، آج میں نے عقیدہ بدل لیا ہے۔ فیصلہ اٹل، افواج پاکستان کیساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوں۔

 فوج تتر بتر ہوئی تو ریاست اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔ کہاں جائے گا میری سویلین بالادستی کا خواب اور کہاں ہو گا میرے آئین کا نفاذ۔ عمران خان کی سیاست کی بیخ کنی کیلئے راکٹ سائنس نہیں چاہئے۔ معمولی سوجھ بوجھ اور سیاسی حکمت عملی کام دکھا جائیگی۔ البتہ عمران خان کے ورغلائے جوانوں کو دوبارہ مین اسٹریم کو حصہ بنانا انتہائی گنجلک معاملہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ کا معاملہ ہم سے مختلف ضرور مگر وہاں افراط و تفریط اور ٹکراؤ ہمارے سے کہیں زیادہ تھا۔ نوبل انعام یافتہ ڈسمنڈ ٹیٹو کی سربراہی میں TRUTH AND RECONCILIATION COMMISSION بنا۔ جس کسی نے بھی ریاست کیخلاف جُرم کیا تھا اُس کو تو اعترافِ جُرم کا موقع دیا گیا اور بدلے میں عام معافی دی گئی۔

 آج ساؤتھ افریقہ دنیا کے پہلے 20 ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے۔ اس اصول کا اطلاق یا موقع عمران خان کو بھی دینا ہو گا۔ اگرچہ عمرا ن خان سے میری مخاصمت ذاتی، ذرہ بھر ہمدردی موجود نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میسولینی، ہٹلر، شیخ مجیب الرحمان، الطاف حسین کی طرز پر عمران خان نے بھی اپنی سیاست اور تحریک انصاف کو اپنی ذات اور زندگی تک محدود اور جوڑ رکھا ہے۔ ایسے لوگ اپنی سیاست کا اپنے ہاتھ سے خاتمہ اور خدانخواستہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ عمران خان سیاست کا خاتمہ بالخیر آسان رہنا ہے۔ سب سے مشکل کام بلکہ امتحان، کرنا ضروری ہے، عمران خان یا کم از کم اُسکی سیاست کو بچانا اور مین اسٹریم کا حصہ بنانا ہے۔

اگر عمران خان کے کیس میں وطنی اکابرین (ہر طبقہ سے) کا بہت بڑا بورڈ تشکیل پا جائے۔ اُسکے ساتھ پہروں گفتگو کر کے اُسے احساس دلوائے کہ اُنکی سیاست کے راستے دو ہی ہیں، بھیانک انجام یا گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے ریاست کی شرائط پر مثبت انداز میں اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں۔ تصوراتی، خیالی، جھوٹ، بہتان نے وقتی مقبولیت تو دی اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھا۔ راستے دو ہی تباہ و برباد ہونے کیلئے آتش نمرود بھی تیار اور دوسرا یہ راستہ کہ اپنی سیاست اور پارٹی کو بچا بھی سکتے ہیں۔ صدق دل سے بہت کچھ دے کر اسٹیبلشمنٹ اور حکومتِ وقت سے NRO لے لیں۔ ڈسمنڈ ٹیٹو کا راستہ، عمران خان گناہوں کا اعتراف اور صلح صفائی کیلئے راستہ ہموار کریں ۔ ڈر ہے کہ عمران خان نے تعاون نہیں کرنا ۔ اس وقت گھر میں اکیلے، تنہائی جان لیوا ثابت ہو گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔