25 مئی ، 2023
موجودہ عہد میں لوگ اپنا کافی زیادہ وقت اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹس اور اسمارٹ فونز کی اسکرینز دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں۔
مگر اس عادت سے بینائی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
طبی ماہرین کے مطابق اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور دیگر ڈیوائسز کو استعمال کرنے کے لیے ہماری آنکھوں کو خصوصی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے آنکھوں کی حرکت، ایک سے دوسری پوزیشن میں منتقلی، توجہ مرکوز کرنا اور دیگر۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری آنکھیں کمپیوٹر اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کے لیے ڈیزائن نہیں ہوئیں خاص طور پر بہت زیادہ وقت تک انہیں دیکھنے کے لیے۔
مگر اب اسمارٹ ڈیوائسز سے خود کو دور رکھنا ممکن نہیں کیونکہ روزمرہ کی زندگی کے متعدد کام ان سے جڑ گئے ہیں۔
تو یہ جاننا ضروری ہے کہ بہت زیادہ وقت ان اسکرینز کے استعمال سے آنکھوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ کی اسکرینوں سے خارج ہونے والی نیلی روشنی حیران کن حد تک طاقتور ہوتی ہے جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
یہ روشنی ان ڈیوائسز کی اسکرینوں کو اتنا روشن کردیتی ہے کہ ہم انہیں دن کی روشنی میں بھی دیکھ سکتے ہیں اور رات کے وقت وہ اتنی روشن ہوتی ہیں کہ آپ اس کا موازنہ دن کی روشنی سے بھی کسی حد تک کرسکتے ہیں۔
اس روشنی سے ہمارے جسم کو سگنل ملتا ہے کہ یہ جاگنے کا وقت ہے اور اسی لیے رات کو سونے سے پہلے ڈیوائسز کے استعمال کرنے کی عادت کو نیند متاثر کرنے کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔
2018 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اسمارٹ فونز سے خارج ہونے والی یہ روشنی آنکھوں میں جذب ہوکر ایسے زہریلے کیمیکل کی پیداوار کو حرکت میں لاتی ہے جس سے خلیات کو نقصان پہنچتا ہے۔
اس نقصان کے نتیجے میں بینائی میں بڑے بلائنڈ اسپاٹس بنتے ہیں جو پٹھوں میں تنزلی کی علامت ہوتے ہیں، یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے اندھے پن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیقی ٹیم نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ اندھیرے میں ان ڈیوائسز کو استعمال نہ کریں کیونکہ اس وقت زیادہ خطرناک نیلی روشنی آنکھوں میں داخل ہوتی ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیوائسز کی نیلی روشنی بذات خود آنکھوں کو مستقل نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر بہت زیادہ دیر تک اسکرینوں کو دیکھنے سے آنکھوں پر دباؤ بڑھتا ہے، جس سے لوگوں کو بینائی کی کمزوری کا سامنا ہو سکتا ہے۔
نیلی روشنی سے ہٹ کر بھی آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ ایک عام مسئلہ ہے جس کے باعث بینائی دھندلانے، آنکھوں میں کسی چیز کے داخل ہونے کا احساس، خارش، سردرد اور خشک آنکھوں جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بہت زیادہ وقت تک اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے سے انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھتا ہے کیونکہ ہم اسکرین کو دیکھتے ہوئے پلکیں بہت کم جھپکاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پلکیں جھپکانے سے آنکھوں کے اندر آنسو بن کر پھیلتے ہیں جس سے آنکھوں کی نمی برقرار رہتی ہے۔
اگر آنکھوں میں آنسوؤں کی مقدار کم ہو جائے تو انفیکشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے فون یا ایپس کے ڈارک موڈ کو بینائی کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے مگر کیا یہ واقعی درست ہے؟
ماہرین کے مطابق اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ جس کمرے میں ڈیوائس استعمال کر رہے ہیں، وہاں روشنی کتنی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈارک موڈ کم روشنی والے مقام کے لیے تو ممکنہ طور پر بہتر ہے مگر مکمل تاریک کمرے میں لائٹ موڈ کو ترجیح دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈارک موڈ یا فون کا نائٹ موڈ ان ایبل کرنا آنکھوں کو کسی حد تک ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ نائٹ موڈ استعمال کرنے پر ہماری آنکھوں کو اردگرد کی روشنی سے مطابقت پیدا کرنے میں زیادہ مدد ملتی ہے جس سے آنکھوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور مواد کو پڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب کے لیے ابھی کوئی خاص تحقیقی کام نہیں ہوا اور جو کچھ ابھی معلوم ہے وہ کافی پیچیدہ ہے۔
مثال کے طور پر جن افراد کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے انہیں اسکرین آنکھوں کے زیادہ قریب کرنا پڑتی ہے جس سے آنکھوں پر دباؤ زیادہ بڑھ سکتا ہے یا نیلی روشنی کو زیادہ دیکھنا پڑتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ اس سے نظر مزید کمزور ہو جائے۔
البتہ بچے یا نوجوان جن کی بینائی کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے، ان کی نظر مزید کمزور ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
دن بھر میں کئی گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارنے سے بینائی کو مستقل نقصان پہنچتا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر چند آسان عادات سے آنکھوں کو تحفظ فراہم کرنا ممکن ہے۔
اپنے فون کو چہرے سے اتنی دور رکھیں جتنی دور آپ کسی کتاب کو پڑھتے ہوئے رکھتے ہیں، اس سے آنکھوں کو بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
ڈیوائسز میں فونٹ کے سائز کو بڑا کرنا ممکن ہوتا ہے جس سے مواد کو دیکھنے کے دوران آنکھوں پر دباؤ زیادہ نہیں بڑھتا۔
ہر 20 منٹ کے کام کے بعد اپنی نگاہوں کو 20 سیکنڈ کے لیے 20 فٹ دور کسی چیز پر گھمانا چاہیے۔
اس سے آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ کم ہو جاتا ہے۔
یہ اصول نہ صرف آنکھوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے تناؤ میں کمی آتی ہے جبکہ نیند کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے۔
جب ہم اسکرینوں کو گھورتے ہیں تو پلک جھپکانا بھول جاتے ہیں جس سے آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں۔
یہ یاد رکھنا اگرچہ مشکل ہوسکتا ہے مگر پلک جھپکانے کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔