چراغ سب کے بجھیں گے؟

9 مئی کے فوج مخالف فسادات کے خوفناک مضمرات تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ منظر سامنے آ گئے ہیں اور مناظر کا ایسا سلسلہ نمودار ہوتا چلا جائے گا کہ جانے کون کون سے چراغ بجھیں گے اور دم توڑتی سیاست کی راکھ سے جانے کوئی چنگاری ٹمٹمائے گی بھی یا پھر تھکے ہوئے گھوڑوں کی منڈی پھر سے سجائی جائے گی؟

 سیاسی پکنک پہ آئے یوتھیوں کی ’’آزادی یا موت‘‘ کی طفلانہ آس کو آزادی تو کیا ملنی تھی، البتہ آہ و زاریوں میں کنارہ کشی کرنے والوں کی آہ و بُکا ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ بنی گالہ سے چڑیلیں بھاگ گئی ہیں اور زمان پارک میں ہُو کا عالم ہے۔ جس طرح کا بے جوڑ اور بے فکر لا ابالی مجمع جمع کیا گیا تھا، ویسے ہی بکھر گیا۔ جم کے کھڑا ہے کپتان اور اسے کوئی پروا نہیں کہ کون رہتا ہے، کون جاتا ہے، کون مر رہا ہے اور کون کدھر نکل بھاگا ہے۔ لیکن ٹھہرئیے! اینٹی کلائمکس ابھی شروع ہوا ہے۔ پاکستان کی تاریخ جدید نو آبادیاتی مقتدرہ سے خون آشام جنگوں اور طویل عوامی جمہوری مزاحمتوں سے بھری پڑی ہے۔

 1968کے عوامی اُبھار کے سامنے جنرل ایوب کی آمریت کو جانا پڑا تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی حریت پسندی کے سامنے جنرل یحییٰ خان کو ہتھیار ڈالنے پڑے تھے تو اُنہیں آزادی ملی تو پاکستان کو 1973کا جمہوری اور وفاقی آئین ملا۔ پاکستان کے جمہوری طور پر منتخب پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پہ چڑھایا گیا تو دسیوں ہزار جیالوں نے جنرل ضیاالحق کی بدترین ظالمانہ آمریت کے خلاف حریت و مزاحمت کی تاریخ لکھی۔

 اس کے بعد بھی نوے کی دہائی میں کوئی انتخاب ایسا نہ تھا جس میں پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی نہیں کی گئی اور جب لاڈلے عمران خان کی طرح متوالے نواز شریف نے پر کھولے تو اس کے پَر کاٹ دئیے گئے، لیکن وہ جلا وطنی اختیار کرنے کے باوجود پلٹ کے آتے رہے۔ یہ چارٹر آف ڈیماکریسی کا کمال تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کی آمریت سے خلاصی کی راہ نکالی تو لیکن اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے۔ پھر قدرِ نیم خود مختار جمہوری ٹرانزیشن چلی، لیکن فوج و عدلیہ کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے ہوئے۔

2011 کے جلسے کا اسٹیج سجانے سے پہلے ہی، جمہوری ٹرانزیشن کو چلتا کرنے کا بندوبست شروع کیا جا چکا تھا۔ کرکٹ کے سپر سٹار فاتح کپتان، سماجی خدمتگار اور خوبرو سیلیبرٹی عمران خان کو میدان میں اُتارا گیا اور جو مڈل کلاس فوج، نواز اور سیاست مخالف بیانیے کی حامل تھی وہ کرپشن مخالف جھنڈے لیے میدان میں اُتر آئی۔ لاڈلے کی چاہت میں 70 اور 80 کی دہائیوں کے کرکٹ فینز اور مغرب میں مشہور ہوتے ہوئے پلے بوائے کی جاذبیت، پھر شوکت خانم کی مسیحائی کیلئے چندہ مہم میں شامل بچے بچیوں کی نسلیں گھر گھر پہنچیں۔ 

لیکن کرکٹ اور مسیحائی سیاسی لیڈر بننے کے کام نہ آئی۔ باقی کام بڑے سیاسی انجینئروں جنرل حمید گل، جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام اور بالآخر جنرل فیض نے کر دکھایا۔ بھارت میں قدامت پسند سماجی کارکن انا ہزارے کے بھرشٹا چار (کرپشن) کے خلاف آندولن سے سبق سیکھتے ہوئے، جب لاہور کی یادگارِ پاکستان پر جلسہ سجایا گیا تو پاکستان میں پرانے سیاستدانوں کی مبینہ کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا آندولن لانچ کر دیا گیا۔ 2013 میں بات نہ بنی تو 2014 کا طویل دھرنا سجایا گیا، دارالحکومت یرغمال بن کے رہ گیا اور پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن کے قومی اثاثے بس مسمار ہوتے ہوتے رہ گئے۔ پھر اپنے پیشرو جسٹس افتخار چوہدری کی روایت پر چلتی چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدلیہ کو میدان میں اُتارا گیا اور وزیراعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل کر کے ایک نئے ہائبرڈ نظام کی بنیاد ڈالنے کا آغاز ہوا۔ 

جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ہر طرف جھاڑو پھروا کر عمران خان کی ہائبرڈ حکومت کیلئے 2018 کے انتخابات میں ایسا جھرلو پھیرا کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور بلوچ پارلیمانی قوم پرست ہاتھ ملتے رہ گئے۔ سیاسی مخالفین کو کرپشن کی سولی پہ چڑھا کر احتساب کا تماشہ لگایا گیا، طالبان کی کابل میں واپسی کی سہولت کاری کی گئی، ٹی ٹی پی کی واپسی کا راستہ ہموار کیا گیا۔ ریاستی غیر پیداواری اخراجات کیلئے پاکستان کی تاریخ کے تقریباً مساوی قرضوں سے مالی و مالیاتی خساروں کی قیمت پر وقتی معاشی نمو کا بلبلہ پیدا کیا گیا جو بالآخر پھٹنا ہی تھا۔

 دریں اثنا وہی ہوا جو 1990 اور 1993 میں متوالے نوازشریف کی حکومت کو لا کر اور پھر نکال کر ہوا۔ لاڈلے وزیراعظم لاڈلے نہیں رہتے، عوامی بخار میں مبتلا ہو کر آئینی استحقاق کے زعم کا شکار ہو کر انہی ہاتھوں کو کاٹنے پہ راغب ہو جاتے ہیں جنہوں نے انہیں تراشا تھا۔ عمران خان کی شور شرابے کی نالائق حکومت ’’ممنوع علاقے‘‘ میں بلا اجازت داخل ہونے لگی تو خطرے کی گھنٹیاں بجیں اور ’’ووٹ کی عزت‘‘ کو بحال کرنے کو میدان میں اتری پی ڈی ایم ’’سویلین بالادستی‘‘ کے سہانے خواب سے نکل کر پٹے ہوئے عمرانی ہائبرڈ رجیم کی جگہ جناب مصالحت کار شہباز شریف کی قیادت میں آداب بجا لانے کو میدان میں اُتاری گئی۔ 

لاڈلے نے تو سٹپٹانا ہی تھا، اُس نے وہ طوفان بپا کیا کہ سب کے اوسان خطا ہو گئے۔ پکنک مناتی پارٹی، اسٹریٹ فائیٹرز میں بدلتی چلی گئی اور وہ تمام اثاثے جو ہائبرڈ وار فیئر میں تیار کئے گئے تھے اور مقتدرہ کی ریٹائرڈ فوج ظفر موج بشمول سرٹیفائیڈ دفاعی تجزیہ کار خم ٹھونک کر ’’فالن ہیرو‘‘ کے عشق میں باہر نکل آئے۔ چوہے نے شراب کے ٹب میں کیا ڈبکی لگائی کہ سیاست سے ریٹائر جنگل کے بادشاہ کو چیلنج کرتے ہوئے ریاست کے آہنی اثاثوں اور قومی ہیروز اور قابل تکریم شہدائے وطن کی یادگاروں تک پہ حملہ آور ہو گئے۔ نئے آرمی چیف عاصم منیر کی قیادت میں فوج کی سیاست سے لاتعلقی کا ایک اچھا وقفہ آیا تھا جسے اشتعال انگیزوں اور نراجیئت پسندوں نے سیاست میں مراجعت پہ مجبور کردیا۔ عمران خان کے پاس کوئی نظریہ تھا، نہ حکمت، پر استقامت ٹیم تھی نہ تنظیم، اور تحریک انصاف ایک ہی جھٹکے میں تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوئی۔

 اب عدالتی سسرال دلہا میاں کو بچائے تو کہاں تک۔ پولیس کریک ڈائون بہت وسیع اور وحشیانہ ہے جس کے خوف سے یا پھر نئی کنگز پارٹی کی آس میں پی ٹی آئی کی قیادت کا بڑا حصہ سیاست سے توبہ کا طلبگار ہوا چاہتا ہے۔ جن انسانی حقوق کی تنظیموں کی عمران خان تضحیک کرتے نہیں تھکتے تھے اور جو ان کے فسطائی رجحانات سے نالاں تھیں، وہی انکے سیاسی و جمہوری حقوق کے لئے میدان میں اُتری ہیں۔ دوسری طرف انسانی و شہری حقوق کی پامالی کا داغ پی ڈی ایم کی حکومت کے ماتھے پر سجنے جا رہا ہے جو فوجی عدالتوں کی حمایت بھی کر رہی ہے۔

 لیکن پی ڈی ایم عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کیلئے انتخابات کو ملتوی کرنے کا جو غیر جمہوری منصوبہ بنا رہی ہے، اُس سے ووٹ کی عزت تو لٹے گی ہی، پرانی پارٹیاں بھی ذلیل و خوار ہو جائیں گی۔ انکے مقدر میں ایک اور ہائبرڈ رجیم آئے گا یا پھر نیم مارشل لا!

چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔