بلاگ
Time 29 مئی ، 2023

یوسفِ بے کارواں

یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کا زمانہ تھا، کشور ناہید صاحبہ نے لاہور میں فیض احمد فیض کی سالگرہ کا اہتمام کیا جس میں اپنے وقت کے معروف شاعروں، ادیبوں، فلم اور ٹی وی کے اداکاروں اور بہت سے سیاستدانوں نے بھی شرکت کی۔

 سالگرہ کی اس تقریب میں کچھ باغیانہ نظمیں سنائی گئیں اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کیخلاف تقریریں بھی کی گئیں۔ اگلے دن اداکار محمدعلی، شعیب ہاشمی، حمید اختر، ملک معراج خالد اور اعتزاز احسن کو گرفتار کرلیا گیا۔ حبیب جالب کی جگہ غلطی سے اداکار حبیب بھی پکڑے گئے اور مارشل لا حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان سب غدارانِ وطن کو جلد ان کے انجام تک پہنچا دیا جائے گا۔ ان سب حضرات کو جیل میں بند کردیا گیا۔ اداکار محمد علی کی اہلیہ زیبا روزانہ بریانی کی ایک دیگ جیل بھجواتی تھیں جس سے دیگر قیدیوں کے علاوہ جیل کا عملہ بھی فیض یاب ہوتا تھا۔

 فوجی حکام کو غدارانِ وطن کی جیل میں عیاشیوں کا پتہ چلا تو اداکار محمد علی کو لاہور سے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ مئی کا مہینہ شروع ہوا تو محمد علی کو جیل میں گرمی دانے نکل آئے۔ ہمارا فلمی ہیرو ان گرمی دانوں کے سامنے بے بس ہوگیا اور اس نے ایک معافی نامہ لکھ کر دیدیا۔ محمد علی کو فوری طور پر رہا کردیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے انہیں آرمی ہائوس راولپنڈی بلا کر اپنی بیٹی زین سے ملوایا جو ان کی بہت بڑی پرستار تھیں۔ اخبارات میں محمد علی اور زین ضیاء کی تصاویر شائع ہوئیں تو فوجی حکومت کی طرف سے اپنے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینے کے دعوے مذاق بن گئے۔ 

محمد علی تو ایک اداکار تھے۔ انہوں نے کبھی انقلابی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا لہٰذا ان کی طرف سے معافی نامہ لکھنے پر کسی کو حیرانی نہیں ہوئی لیکن حیرت ہے کہ آج کل پاکستان کی سیاست میں بہت سے انقلابیوں کے معافی ناموں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف میں جن مفاد پرستوں کو ہجوم در ہجوم شامل کرایا گیا تھا وہ سب انقلاب کے دعویدار بن بیٹھے تھے۔ آج یہ انقلابی ،ہجوم در ہجوم عمران خان کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔

 انہی نام نہاد انقلابیوں میں ایک علی زیدی بھی تھے۔ یہ صاحب جب وفاقی وزیر تھے تو ہمارے شہید دوست ارشد شریف نے علی زیدی کو خوب بے نقاب کیا تھا۔ کچھ دن پہلے تک موصوف دعویٰ کر رہے تھے کہ جب تک عمران خان تحریک انصاف نہیں چھوڑیں گے میں بھی نہیں چھوڑوں گا۔ پھر اداکار محمد علی کے اسٹائل میں علی زیدی نے اپنے ماتھے پر انگلی رکھ کر کہا کہ میں ماتھے پر گولی کھا لوں گا لیکن تحریک انصاف نہیں چھوڑوں گا۔ کچھ دن کے بعد علی زیدی نے انتہائی ڈھٹائی سے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا تو ہمیں محمد علی یاد آگئے۔ علی زیدی نے اداکاری میں محمد علی کو مات دے دی۔

جس دن کراچی سے تحریک انصاف کے رہنما محمود مولوی نے عمران خان کو خدا حافظ کہا تھا ہم نے تو اسی دن کہہ دیا تھا کہ اب علی زیدی بھی چلے جائیں گے کیونکہ علی زیدی کا محمود مولوی کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا۔ ہم سے بھی بہت پہلے کشور ناہید نے علی زیدی جیسوں کو پہچان لیا اور بے نقاب بھی کردیا۔ کچھ دن پہلے کشور ناہید کی ایک اور کتاب ’’سوچ سے خوف کیوں!‘‘شائع ہوئی ہے جس میں ’’گفت وناگفت طلسم ہوشربا‘‘ کے نام سے ان کی ایک دلچسپ تحریر شامل ہے۔ اس تحریر میں وہ عمران خان سے مخاطب ہیں اور ان سے پوچھ رہی ہیں ۔’’تمہیں ابھی تک ہر طرح کے سامان عشرت لینے کی عادت تھی۔ یہ تو بتائو وہ کہاں ہیں جو امریکہ اور انگلینڈ سے آئے تھے۔ وہ کیا اپنے ٹھکانوں پر واپس چلے گئے؟ وہ جو بحر و بر پکڑنے کراچی میں براجمان تھا۔ بغلوں میں منہ دے کر میٹنگ میں ہنستا تھا، اب کس کے گھر میں مفتا مانگتا ہوگا۔‘‘ کشور ناہید سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس تحریر میں انہوں نے قلم کو تلوار کی طرح چلایا ہے۔ کہیں عمران خان کو ’’یوسف بے کارواں‘‘ لکھا اور کہیں بتایا ۔’’اسے خبر نہ تھی کہ سیاست میں آ کر وہ افتخار عارف کی نظم، یعنی باراہوں کھلاڑی بن کر باہر ہوگا۔‘‘

کشور آپا کا ایک جملہ مجھے اچھا نہیں لگا۔ فرماتی ہیں۔ ’’مراد سعید تمہاری آنکھ کا تارا تھا، اس معصوم کو جیسے چاہو استعمال کرو اپنی شامیں آباد کرو۔‘‘ مراد سعید آج کل انتہائی سنگین الزامات کی زد میں ہے لیکن وہ ابھی تک تو عمران خان کے ساتھ ہے۔ کشور ناہید نے جمائما گولڈ سمتھ کو ایک فرشتہ صفت عورت قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک ایسی بچی کو ماں بن کر پال رہی ہے جسے عمران خان نے اپنی بیٹی تسلیم کرنے سے انکار کردیا لیکن ریحام خان اور بشریٰ بی بی کے بارے میں کشور ناہید نے بہت غضب ناک باتیں لکھ ڈالی ہیں۔ کشورناہید نے اس زمانے میں عورتوں کے حقوق کی آواز بلند کی تھی جب این جی اوز وغیرہ نہیں ہوتی تھیں۔

 ان کی نظم ’’ہم گناہ گار عورتیں‘‘کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ خود انہوں نے اپنی ایک کتاب کا نام ’’بُری عورت کی کتھا‘‘ رکھا لیکن بشریٰ بی بی پر انہوں نے جس انداز میں تنقید کی ہے اس کےبعد وہ تحریک انصاف والوں کے لئے سب سے بُری عور ت بن چکی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کو اپنی پیری مریدی کے شیشے میں اتارا اور پھر اس کا ارمان مع پانچ بچوں کے اپنے سرخ گھونگٹ میں چھپا کر پورا کیا۔ کشور ناہید نے عمران خان پر اس وقت بھی تنقید کی تھی جب وہ وزیر اعظم تھے اور وہ آج بھی عمران ان کی ناقد ہیں لیکن کشور ناہید موجودہ حکومت سے بھی سخت مایوس ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے میں نے لاہور میں جشن جون ایلیا کی ایک نشست میں موجود حکومت کے بارے میں جون ایلیا کا یہ شعر پڑھا:

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

کشور آپا بالکل سامنے بیٹھی تھیں۔ شعر سن کر زور سے بولیں کہ ان حکمرانوں نے تو غریبوں کو تباہ کردیا جو چنے کی دال بھی نہیں خریدسکتے۔ آج کل یہ حکومت تحریک انصاف والوں کو غدار قرار دے رہی ہے۔ بہت سے شہروں میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی تصاویر چوکوں اور چوراہوں میں لٹکا کر غدارانِ وطن پر لعن طعن کی جا رہی ہے۔ میں ان غداروں میں اپنی تصویر تلاش کرتا رہا۔ جب مجھے اپنی تصویر ان میں نظر نہ آئی تو مجھے ان سب کی غداری پر شک گزرا۔ یہ بھی ویسے ہی غدار ہیں جیسا غدار اداکار محمد علی تھا۔ ایک معافی نامہ لکھ کر وہ غداری کے الزام سے نکل گیا تھا۔ تحریک انصاف والوں میں سے جو عمران خان کو چھوڑ دیتا ہے وہ غدار نہیں رہتا۔ پہلے ہماری ریاست دو نمبر محب وطن پیدا کیا کرتی تھی اب دو نمبر غدار پیدا کئے جا رہے ہیں۔

 مجھ جیسے پرانے غدار عمران خان کے ساتھ تمام تر اختلافات کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ حکومت اور اس کے سرپرستوں نے غداری کے الزام کوبھی ایک مذاق بنا دیا ہے۔ اس ملک میں نئے غداروں کی ایک جماعت پر پابندی لگانے کی دھمکیاں دینے والے ان پرانے محب وطن ریٹائرڈ جرنیلوں کے بارے میں خاموش ہیں جو زور زبردستی سے اس غدار جماعت کو اقتدار میں لائے۔ اگر اس مرتبہ بھی احتساب صرف سیاستدانوں کا ہونا ہے تو یاد رکھیں آج عمران خان یوسف بے کارواں ہے تو کل کو پی ڈی ایم والے بھی یوسف بے کارواں ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔